میں نے کبھی اپنے دل کو عیاشی کا اڈا نہیں بننے دیاناگوار رستوں پہ چلتے پاؤں کی تھکن اتارنے کے لیے اسے سرور کی راہوں کا وقتی مسافر بنائے رکھا خوبصورت شکل یا عقل کی عورت مرد کے دل و دماغ کی کیفیت کو بدلنے کا قدرتی ہنر رکھتی ہے مگر خدا گواہ ہے میں نے کبھی کسی آوارہ بازاری مطلب مردوں کے ہجوم میں خوش رہنے والی تقسیم شدہ عورت سے عشق تو دُور کی بات اس پر سوچنا بھی عشق کے معیار کے خلاف سمجھا مجھے پہلی دفعہ جس عورت سے عشق ہوا میں اس کی زندگی کا پہلا مرد تھااور میری زندگی کی وہ پہلی عورت تھی ہم دونوں نے پہلی بار مخالف جنس کو حوس کی بجائے محبت سے چھوا تھا۔
عشق ایک ہی بار ہوتا ہے اس کے بعدہمیشہ محبت ہی ہوتی ہے جو کئی بار ہو جاتی ہے ان کے علاوہ ایک کیفیت کا نام خواہش نفس ہے عشق و محبت کے لیے وجود کا حاصل ہونا شرط نہیں ہے مگر خواہش نفس وجود سے شروع ہو کر وجود پرہی ختم ہو جاتی ہے مجھے اس خواہش نفس سے ہمیشہ ابلیس جتنی نفرت رہی ہے کیونکہ اس نے عشق و محبت جیسے مقدس جذبے کے نام کا سب سے زیادہ غلط استعمال کیاہے انسانی وجود پر عشق موت کی طرح اک ہی بارا ٓتا ہے محبت زندگی کی مصیبتوں کی طرح آتی جاتی رہتی ہے اور خواہش نفس دُکھوں کی طرح ہمیشہ ساتھ رہتی ہے اوریہ اتنی ڈھیٹ ہے کہ طاقت جسم ختم ہو بھی جائے مگر خواہش نفس ختم نہیں ہوتی۔
عشق کا مقام محبت و خواہش سے بہت اوپرکے درجے کا ہوتا ہے مجھے عشق کی موجودگی میں زندگی پہ گزرنے والے سارے عذاب یاد ہیں عشق کو میں نے کلیجے سے لگایا،پلکوں پہ سجایا،دن اُجاڑے راتیں جلائیں،ہچکیوں سے دل کو ڈسوایا،حسرتوں سے تڑوایا،پسند پر تلملایا، ہوش کھونے والی تمام ترکیبوں کو آزمایا اور ناکام پایا کہ عشق پہ کچھ اثر نہیں کرتا،پلکوں پہ اشک پرؤے،رخساروں کو تر کیاتکیے بھگوئے، چاندنی راتوں میں اپنی ذات کے اندھیرے مٹانے کو آس کے دیپ جلاتا جیسے جدائی کی ہوائیں بجھا کر نکل جاتیں، تاروں بھرے آسمان پر اکیلے چاند کی رونق کا منظر بھری دنیا میں میرے اکیلے محبوب جیسا تھا جیسے سب دیکھتے تھے مگر وہ صرف مجھے ہی دیکھتا تھا اس کی توجہ کا مرکز بننا بادشاہ بننے سے بھی بڑی امیری کا احساس تھا اس کے لیے میں نے جان لیوا خطروں کو ٹھوکریں ماریں، موت کی آنکھوں میں دُھول جھونکی خنجروں پہ سینہ رکھا،تلواروں کی دھاروں پر کروٹیں بدلیں،انتظار کی کڑی دھوپ میں خواہش دیدار میں ڈبڈبائی آنکھیں پلکوں کے سائے میں اُس کی راہ گزر میں بچھائے رکھیں۔
وہ کبھی گفتگو کے لیے مخاطب کر لیتی تو اس کی سماعت کو جو لبھائے وہ لفظ کھینچ کر اپنی زبان پہ لاتا تو کئی لفظ ہوش کھوئے حافظے کے ہاتھوں رستے میں پھسل جاتے۔یہ کہنا ہے اور ایسے کہنا ہے کی تادیر مشق اُس کے حسن کی تاب نہ لا سکنے پر منظر سے غائب ہو جاتی۔کیا بتاؤں کہ کتنے برس تک اُ س کے لیے پیدا ہونے والی محبت کا علم دل اُسے ہی بتا نہیں پایا تھا میں کتنی شدت سے حسرت کرتا تھا کہ میری محبت کا اظہار اُس کے دل پر وحی کی طرح اتر جائے یا اُس کے سینے پہ القاء ہو جائے یہ عشق کے نیزے پہ میری محبت کا سر اُس کے پیار کا اعلان کیے جا رہا تھا۔۔۔ہائے یہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔۔۔اُس کا ہونے کے لیے میں خود کو کھوتے جا رہا ہوں۔۔۔اے عشق تو کس دشمنی پہ اُتر آیا ہے جو تو میرے ہی ہاتھوں سے مجھے مارنے کے روز نئے نئے تجرنے کرتا ہے۔
اُس کے بغیر گزرا اک اک پل موت کے الگ الگ ذائقے کا پتا دیتا ہے میری برسوں کی پیاس کا مرکز وہ چشمہ ہے جو مجھے کبھی اتنا بھی میسر نہیں ہوتا کہ میں خود کو سر سے لے کر پاؤں تک سیراب کر پاؤں عجب آب محبت ہے جس کا پینا پیاس دیدار بڑھائے چلا جا تا ہے
وہ میرے اندر اتنا رہتی ہے کہ میں فقط اُس کے ہونٹوں کی جنبش سے اُس کی بات اپنی زبان سے بیان کر سکتا ہوں مگر میں خاموش رہتا ہوں کیونکہ وہ جب بولتی ہے تو اُس کی آواز میرے کانوں تک پہنچنے سے پہلے جو فضاء کے ہوش بگاڑ کے آتی ہے اُن ہوا کی لہروں کو بھی رقص میں دیکھتا ہوں اور میری سماعت اُ س کے کہے کے سرور میں تادیر کسی اور آواز کو سن نہیں پاتی۔
اُس کی گفتگو کی شیرینی ایسی ہے تو زبان کا عالم کیا ہوگا۔اُس کے دیدار کی پھوٹتی بوندیں ابھی میرے پیاسے سسکتے دل کی دہلیز تک نہیں پہنچی تھیں کہ اُس نے کہہ دیا۔۔۔میں چلتی ہوں۔۔۔جی چلے جائیے۔۔۔عجب مجبور و تابعدار عاشق ہوں اُس کے قدموں تلے اپنے دل کا قالین بچھانے میں لگ گیا اور عقل جھنجھوڑ رہی تھی چیخ رہی تھی ارے پگلے تجھے اُسے مزید اپنے پاس رکھنا چاہیے مگر یہ دل کا معاملہ عقل میں غالب آیا ہوا ہے اور یہ عشق میرے دل سے اُس کے حق میں ہر کام کروائے جا رہا ہے وہ جاتے ہوئے پلٹ کر بولی اتنی خوبصورتی سے رُخصت نہیں کرتے کہ آنے سے زیادہ جانے پر دھیان رہتا ہے
میں نے کہا تم میری منزل ہو اور میں تمہارے وہ راستے بننا چاہتا ہوں جو آئیں یا جائیں دونوں صورت میں تجھے مجھ سے ہی ملوائیں۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی نظروں سے اُوجل بھی ہوگئی مگراُس کے وجود کی خوشبو میرے پاس ٹھہری رہی۔۔۔اُس کے جانے کے بعد میں اپنے آپ کو کوسنے لگا ایک بار نہیں ہزار بار شیطان کی پھٹکار میرے اس جملے پر کہ۔۔۔جی چلے جائیں۔۔۔میرے حق میں مجھے مشورہ دینے والی عقل سامنے آئی اور بولی کہا تھا ناں روک لو اُسے، تادیر اپنے پاس رکھنے کے بہانے تراشوں،بہلاو اُسے اُس کی پسندیدہ باتوں سے،مگر تم اُس کے سامنے بھی اُسی کے حق میں ہو جاتے ہو تمہیں اُس پر اپنی تکمیل چاہت کی بھی گرفت رکھنی چاہیے عقل کی بات نا ماننے پر غصے میں آئے میرے دماغ نے تڑاق سے میرے منہ پر طمانچہ دے ماردیا اورمریض محبت کی حالت سمجھتے ہوئے میرے دل نے مسکرا کر چٹاخ سے میرا منہ چوم لیا۔
یہ عشق نا ہنسنے دیتا ہے نا رونے نا پانے دیتا ہے نا کھونے بس پوری شدت سے لاحاصل کا ہو کر جینے پرپابند کیے رکھتاہے ہونا تو یہ چاہیے مکمل طور پر نا ملنے والے شخص کی تمنا ہی چھوڑ دی جائے مگردیکھیں اہل دل میرے اندر جس محبت کا جواب نہیں آ رہا وہ عشق بنی پڑی ہے
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-