وہ دور بہت دُور چلا گیا ہے جب انسانوں کی رگوں میں ایسا خون دوڑتا تھا جو انسانی تعلق پر نسلوں تک وفا کا پہرہ دینے کا پابند ہوتا تھا انسانیت کا یہ معیارتھا کہ دوست کے پسینے پر خون چھڑکتے تھے اور آج مشکل وقت میں منظر سے غائب ہونے والے خون اپنے سفید ہونے کا اعلان کرجاتے ہیں خوشی کی عمر کس قدرقلیل اور غم کی عمر کتنی طویل ہوتی ہے جب انسان خود پر لاگو فرائض انسانیت کی زمہ داری کا احساس محسوس کرتا ہے تو خوفناک خدشات کسی المناک حادثے سے دوچار ہونے کی خبر دے رہے ہوتے ہیں یہ روح کی بیداری کا احساس تو ہے لیکن وہ کیا کرئے جس کا دل احساس انسانیت سے تو مالا مال ہومگر دولت دنیا کے اعتبار سے کنگال ہوان حالات میں انسانیت کے دکھ کے ساتھ ساتھ اپنی بے بسی کا دکھ بھی سینے میں چبھتے خنجر کی طرح پڑا رہتا ہے۔
زندگی کو کب تک خوبصورت منظروں کا فریب دیا جا سکتا ہے اک دن بدصور ت مقدروں کی تلوار ساری حسرتوں کا سرقلم کر دیتی ہے انسان کی حالت بے بسی اس کی زندگی کے منہ کا ذائقہ کڑوا کر دیتی ہے اور وہ انسان جو خدا کی محبت بن کر زمین پہ اترا تھا وہ کہنے لگا کہ گواہ رہنا اے روح کائنات میں بے حس خودغرض لاپرواہ اور ظالموں کے بیچ میں زندہ رہنے کا عذاب جھیل رہا ہوں۔
غربت و بے بسی کی بلاؤں کے نزول نے سانس لینا دشواربنارکھا ہے مفلس کے حالات اور زندگی کے تصادم میں حشر انسان دیکھ کر میری روح پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے دنیا کے بازار میں ضروریات زندگی خریدنے کی سکت نہ رکھنے والوں کو خالی ہاتھ لوٹتے دیکھتا ہوں تو ان کے چہرے دل خراش داستانیں سنا رہے ہوتے ہیں جو میرا سینہ چھلنی کرتی ہیں سچ بتاؤں تو میں دُکھیاانسانیت پر کُڑھنے والا انسان بن چکا ہوں ہر متاثر انسان مجھے میرے وجود کا حصہ محسوس ہوتے ہیں اور یہ احساس ساری دنیا کا احاطہ کئے ہوئے ہے کسی غریب کے گھر کا چولہانہ جلے تو میرے سینے سے دھواں اُٹھنے لگتا ہے بھوک سے پیٹ بھرنے والوں کی پسلیاں دیکھ کر میرے وجود کی ہڈیاں مجھے چبھنے لگتی ہیں کسی کونے میں چھپ کر رونے والوں کی آوازیں سن کر میری کم بخت آنکھیں آنسو برسانے لگتی ہیں تنگدستی کی چارپائی پر پڑے کسی غریب کے جاتے جنازے کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے میری ہی روح دور کھڑی اپنے جسم کو دنیا سے جاتا دیکھ رہی ہے کئی گھڑیاں اس کیفیت میں گزارنے کے بعدہوش کرکے کہتا ہوں اللہ نہ کرئے کہ کسی بدبخت کے سینے میں ابوالانسان کا دل دھڑکنے لگے۔
غم جب دل کے دروازے پر دستک دیں تو ان کو مہمان ٹھہرالیں اس کے درد کی دوا کریں اور انہیں رخصت کر دیں ہمدردوں کا معمول زندگی تویہی ہونا چاہیے مگر مجھے خوش رہنے کا یہ ہنر ساری زندگی نہ آ سکا میں غم کو پال پوس پر پروان چڑھاتا چھاتی سے لگائے اس طرح دودھ پلاتا رہتا جیسے میں دُکھوں کی وہ ماں ہوں جو حالات کے ہاتھوں زخمی بچوں کو بھولنے کی بجائے ہر لمحہ ان کی فکر میں لگی رہتی ہے میرے بچوں کے چہروں پر مسکان نہیں ہے اس لیے مجھے مسکرانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کبھی عالم تنہائی میں گزرے وقت کے کسی واقعے کو یاد کرکے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی جنبش ہو جاتی تو چہرے پہ خوف طاری ہو جاتا مجھے ہنسنے کا خمازہ بھگتنا پڑتا ہے جس قدر ہنسوں اُسی قدر رُلایا جاؤں گا۔
میری رُوح ضرور عالم ارواح میں پیغمبروں کی ہمسایہ رہی ہوگئی جو سب کا غم کھانا اس کی فطرت بنی ہوئی ہے غم یہ نہیں کہ میری روح غم کھانے والی ہے غم تو یہ ہے کہ میرا وجود غم انسانیت مٹانے میں کمزور حالات کا مالک ہے کاش میں خزانہ قدرت سے کچھ خوشگوار لمحے چرا کرمفت میں اُن تلخ زندگیوں کے دامن میں ڈال دیتاجو خواب میں بھی اپنی آنکھوں سے بڑے خواب دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔
ان والدین کا حال کون جانتا ہے جو اپنے بچوں کوآسانی کا راستہ دینے کے لیے خود مشکل کی راہ پر نکل پڑتے ہیں ان کی زندگی شیریں چیزوں کا دسترخوان نہیں بلکہ ہر وقت زبان پر حالات کی کڑواہٹ کا ذائقہ رہتا ہے ان حالات میں جینے والے لوگوں کا زندہ رہنا سخت جانی کا معجزہ ہے۔حیات خود غرضیت کے مریض احساس انسانیت سے خالی لوگ میری مشکل پر ہنستے ہیں تو میں ان کے ہنسنے پر دل تھام کے روتاہوا دریا شرمندگی میں ڈوب جاتا میرے آنسو ظالموں کے تعاقب میں لگے ہیں خدا قاتل انسانیت کی اُداسیوں کی عمر دراز کرئے۔آمین ثم آمین
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ اس لکھاری نے اپنی تحریر میں کیسی غم کی منڈی لگا رکھی ہے میری روح کا ماننا ہے کہ غم خداکی بخشی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے اس سے کنارہ کشی کفران نعمت ہے صوفی کہتا ہے کہ جو بھی غم سے دور ہے اُس پر عذاب لازم ہے کیونکہ یہ طریق خداوند کے خلاف ہے اگر آپ غم انسانیت کے خزانوں سے بھرے دل و دماغ کے مالک ہیں تو مبارک ہو آپ صرف اک انسان ہی نہیں فخر انسانیت ہیں ایسے ہی لوگ تاریخ کا عطر ہوا کرتے ہیں انسانی دل کے آئینے میں چمک تب تک نہیں آتی جب تک اس کے پیچھے غم کا زنگ نہ لگا ہومستحق ضرورت مند مجبور انسانوں کی مدد کے واسطے جانے والوں کے آگے پیچھے خدا کا نور چلتا ہے روح انسانیت انہیں سلام پیش کرتی ہے
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-