حالات کس سمت جاریے ہیں۔۔۔!!!

ہم گلے سٹرے سیاسی نظام کے اس قدر اسیر ہوچکے ہیں کہ ہمارے سیاسی اور ریاستی نظام پر اشریفہ کی گرفت مضبوط سے مضبوط ہوکر مفادات کی جنگ میں اس قدر آگے بڑھ گئی کہ واپسی ناگزیر ہے۔ اور اس وقت پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ یقیناً ہماری ملکی  تاریخ میں پہلی بار دیکھے جارہے ہیں۔

موجودہ سیاست پر نگاہ دوڑائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہےکہ ہر نیا آنے والا دن گزرجانے والے دن سے بدتر محسوس ہوتا ہے۔حال کی نسبت ماضی بہتر لگنے لگتا ہے۔ بد قسمتی سے نہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق حاصل کیا ہے اور نہ ہی حال میں بدترین ملکی صورتحال سے کچھ سیکھنے پر تیار ہیں۔ کیا عوام‘ کیا حکمران اور کیا ہمارے حقیقی فیصلہ ساز‘ سارے کے سارے اپنے مفاد کی بہتی کنگا میں مگن ہیں، جنہیں نہ اپنے ماضی پر کوئی شرمندگی ہے اور نہ کل کی پروا ہے۔ رہ گیا مستقبل‘ تو اس کے بارے میں تو ہم نے نہ کبھی سوچا ہے اور نہ ہی یہ ہماری ترجیحات میں کہیں دکھائی دیتا ہے۔

ہماری خود مختاری آئی ایم ایف کے سپرد کر دی گئی ہے،آئی ایم ایف ‘ورلڈ بینک ہو یا ایشیا ڈویلپمنٹ بینک ہم سب سے قرض پر قرض لیتے جا رہے ہیں یہ سوچے بنا کہ اس کی واپسی کی ذمہ داری ہماری نہیں، جس بناء پر قرض کا حجم اس قرد بڑھ چکا ہے کہ قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے مذید قرض لینا پڑ رہا ہے جس سے عوام کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔

توانائی کے شعبے کے بحران نے تمام معاملات تباہ کر دیئے ہیں، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں نے نہ صرف عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے،بلکہ صنعتی و تجارتی شعبہ جات بھی بحرانی کیفیت سے دوچار نظر آ رہے ہیں،آدھی کے لگ بھگ انڈسٹری بند ہو چکی ہے یا ہونے والی ہے۔ گاڑیاں بنانے والی کئی کمپنیاں اپنی پیداوار کم کر چکی ہیں اور کئی یونٹ قلیل المدتی بندش کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ وقتی بندش مستقل میں بھی بدل سکتی ہے۔ بیشتر ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیاں پاکستان میں اپنا بزنس بند کرکے رخصت ہو چکی ہیں۔ جو موجود ہیں وہ اپنا آپریشن بند کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ ان دوا ساز کمپنیوں میں دنیا کی بڑی مشہور اور نامور کمپنیاں شامل ہیں۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں گزشتہ پانچ چھ عشروں سے کام کر رہی تھیں۔ اگر وہ پچیس کروڑ آبادی والے ملک میں اپنا بزنس بند کرکے واپس جا رہی ہیں تو اس کا کوئی سبب تو ہوگا۔ آخر اس ملک میں اپنی پیداوار بند کرکے بوریا بستر لپیٹ کر جانے کاکیا سبب ہے‘ اس پر حکمرانوں کو کوئی تشویش ہے…. ؟

دوا ساز کمپنی ہو یا کوئی پٹرولیم کمپنی‘ کوئی موبائل فون آپریٹر ہو یا کاریں بنانے والی کمپنیاں ہوں‘ یہ دنیا بھر میں کاروبار کرتی ہیں۔ مینو فیکچرنگ انڈسٹری میں سب سے اہم چیز مارکیٹ والیم ہوتا ہے یعنی اس پیداوار کے خریداروں کی تعداد۔۔۔۔
دنیا بھر میں پیداواری صنعت خریداروں کی تعداد اور ان کی قوتِ خرید سے جڑی ہوتی ہے۔ اب بھلا جس ملک کی آبادی پچیس کروڑ سے زیادہ ہو اور آبادی کے لحاظ سے وہ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہو‘ اگر وہاں سے ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جا رہی ہوں تو اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں منافع کمانے کے لیے کام کرتی ہیں‘ گھاٹے کے لیے نہیں۔ پچیس کروڑ لوگوں کی مارکیٹ کو چھوڑنا آسان کام نہیں مگر تا دیر گھاٹے پر کاروبار چلانا پرائیویٹ سیکٹر میں ممکن ہی نہیں ہے۔ اس ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ اب وہ قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں رہا جو کمپنیوں کی پیداواری لاگت پوری کر سکے۔  دوسری طرف رہی سہی کسر انٹرنیٹ کی بندش سے پوری ہوگئی ہے۔ اس مسئلے کو دو ہفتے ہونے والے ہیں، کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، عام شہری اذیت کا شکار ہیں، لیکن کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ مسئلہ کیا ہے، کوئی بتانے کو تیار نہیں سینکڑوں نہیں لاکھوں فری لائنسرز کا روز گار خطرات میں گِھر چکا ہے۔ ورلڈ بینک کی جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں 20 ممالک کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہاں سے لوگوں نے ہجرت کرنا پسند کیا ہے ان ممالک میں  پاکستان صف ِ اول میں ہے۔ 2023ء کے دوران یہاں سے 16 لاکھ سے زائد افراد نے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کی۔گویا نوجوان نسل اپنے ملک میں اپنے حال سے مطمئن نہیں ہے۔ تو گویا ہم کس طرف جارہے ہیں۔  عوام کی برداشت کا پیمانہ لیربز ہو چکا ہے

ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی گئی مگر حکومت تاحال عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف نہیں دے سکی، حکمرانوں اور ذمہ داران کو لگتا ہے رتی بھر پرواہ نہیں ہے ایسے میں حالات و معاملات کس طرف جارہے ہیں۔۔۔!

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-