موجودہ سیاسی منظرنامہ

آج 78 سالوں کے بعد بھی پاکستان کی سیاست آزاد نہیں، 77 سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے جس میں قومیں اپنا وجود منوا لیتی ہیں مگر زوال کا ایک سفر ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، سیاست پر چھائے کالے بادل چھٹنے تیار نہیں۔یہاں نصف صدی بیت چکی ہے مگر دائرے کا سفر جاری وساری ہے اس دائرے کے سفر میں سوائے کچھ چہروں اور کرداروں کے علاوہ وہ بھی لوٹ مار کر کے یا تو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر گئے یا پھراس جہان سے کوچ کر گئے باصورت دیگر وہ مزید اس درتی کا خون چوستے رہتے، یہاں نصف صدی پہلے کے واقعات دیکھ لیں یا آج کے دونوں میں سرِموفرق نظر نہیں آئے گا۔ ایک جماعت زیرعتاب رہے گی تو دوسری اقتدار کے مزے لوٹے گی۔ یہ چوہے بلی کا کھیل پاکستان کو کتنا پیچھے لے جا چکا ہے یہ آنکھوں دیکھا حال ہے خیر اب اگر موجودہ حالات پر بات کی جائے تو ملک میں ایک بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت موجود ہے بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے لیپا پوتی کر کے ایک دیوار کھڑی کر دی گئی ہو جو اندر سے کھوکھلی ہو حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں۔بظاہر اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ سب ٹھیک ہے مگر سب ٹھیک نہیں ہے۔

اڈیالہ میں بیٹھا ہوا وہ ایک شخص پورے ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کئے ہوئے ہے۔ اسی بناء پر حکومت کی جانب سے ہر تاخیری حربہ استعمال کرکے خان کے خلاف کیسزز کو لٹکایا جارہا ہے وہ اس لیے کے اگر وہ باہر آتے ہیں تو وہ موجودہ سیٹ اپ کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔

اس وقت حالات یہ ہیں کہ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، نہ سیاسی قوتیں، نہ ہی ایسٹیبلشمنٹ اور نہ عمران خان  انا اور مفادات کے کھیل میں جیت کسی کی نہیں ہوتی البتہ نقصان سب کا ہوتا ہے۔ اگر تو حکمت عملی یہ ہے عمران خان کو مقدمات میں الجھا کر اور لمبے عرصے تک جیل میں رکھ اپنے مطلب کے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں تو معاف کیجئے یہ حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ عمران خان نے توقع سے زیادہ مزاحمت اور سخت جانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ٹوٹ کر بکھرے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کچھ کیا ہے جو ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ ایسے حالات میں ہمارے سیاسی رہنماؤں نے وقتی طور پر  این آر اہ یا جلاوطنی کا راستہ اختیار کیا۔ ایک لیڈر کو اگر ہم اپنے اقدامات سے اتنا مقبول کر دیتے ہیں کہ اس کی تصویر دکھانے سے بھی ہمیں پریشانی لاحق ہو جاتی ہے تو پھر یہ تصور کرنا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات ٹھنڈے پڑ جائیں گے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لے کے مترادف ہے۔
اور اگر بات کی جائے تو ملک میں اس وقت مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، جبکہ معیشت کا ستیاناس ہو چکا ہے  یوٹیلٹی سٹورز  بند کرنے کا حکم دیا جارہا ہے  بجلی، گیس اور پیٹرول تو پہلے ہی قابو سے باہر تھا باقی رہی سہی کسر انٹر نیٹ کی بندش سے نکل گئی ہے مگر  اس تمام تر کے باوجود حکومت کی تمام تر توجہ کا مرکز  انتقامی سیاست اور اڈیالہ میں  موجود ایک شخص اور جماعت کے گرد گھومتی نظر آرہی ہے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت جس کی پورے ملک میں نمائندگی ہے اسے راستے سے ہٹانے کے لیے پابندی لگانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے اس سے کیا ہوگا کیا سیاسی استحکام آجائے گا کیا اس سے مزید انتشار یا بحران جنم نہیں لے گا یا ماضی میں ایسے کسی اقدام سے کسی مقبول جماعت کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔سیاسی حلقے اس بات پر بھی حیران ہیں کہ ایک سیاسی جماعت دوسری جماعت پر پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے، ایسا تو اس ملک میں کبھی نہیں ہوا،البتہ آمریت کے دور میں ایسے فیصلے ضرور ہوتے رہے،  وفاقی وزیراطلاعات نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا اعلان کرتے ہوئے جو پریس کانفرنس کی اس میں جو وجوہات بتائیں وہ پہلے ہی عدالتوں میں اپنا جواز کھو چکی ہیں، سائفرکیس اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے، فارن فنڈنگ کا معاملہ ثابت نہیں ہو سکا، باقی معاملات بھی ایسے ہیں، جنہیں سپریم کورٹ میں ثابت کرنا شائد اتنا آسان نہ ہو۔

9مئی کے واقعات کوآج سوا سال سے بھی اوپر ہو گیا ہے، کسی ایک ملزم کو بھی ابھی تک سزا نہیں ہوسکی، یہ پراسیکیوشن کی کمزوری ہے یا درج کی گئی ایف آئی آر کمزور تھیں، معاملہ کچھ بھی ہو، یہ بنیاد بھی سپریم کورٹ میں تحریک انصاف پر پابندی کا ریفرنس دائر کرتے ہوئے شاید کمزور ثابت ہو گی۔جب 8فروری کے انتخابات ہوئے تو الیکشن کمیشن نتائج جاری کرنے میں ناکام رہا، متنازعہ صورتِ حال بنتی چلی گئی اور آج تک موجود ہے تاہم اس کے باوجود جب حکومتیں بن گئیں،اسمبلیاں قائم ہو گئیں تو سیاسی قوتوں کو استحکام کے لئے متحرک ہونا چاہیے تھا۔ عرصہ دراز سے سنجیدہ حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں، سیاسی افہام و تفہیم کے لئے انا کے بت توڑے جائیں۔ عمران خان اگر مسائل پیدا کررہے ہیں تو ان سے رابطہ قائم کرکے انہیں اس کا احساس دلایا جائے کہ ملک کو آگے لے جانے کے لئے استحکام کی ضرورت ہے، اس لئے وہ سسٹم کو چلنے دیں۔کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں تو ایسی گڑ بڑ ہوئی ہے، جس نے معاملات کوسلجھنے نہیں دیا۔ہماری سیاست کا یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہر دور میں انتشار اس کا مقدر بن جاتا ہے بحران کو بڑھانا تو بہت آسان ہے اصل کامیابی بحران کو ختم کرنا ہے، سیاسی جماعتیں کوشش کریں تو یہ کامیابی ناممکن نہیں۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-