ارشد ندیم ہمت اور حوصلے کی مثال

اگست آزادی کا مہینہ تو ہے ہی مگر اس بار 14 اگست کی خوشی دوگنی ہو گئی  جب خبر آئی کہ  پاکستانی ایتھلیٹ ارشد ندیم  نے اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیت کے دنیا بھر میں پاکستان کا نام اونچا کیا بلکہ سبز ہلالی پرچم کو بھی دنیا بھر میں بلند کر دیا ارشد ندیم نے اپنی فتح کو پاکستانی قوم کے لئے آزادی کا تحفہ قرار دیا۔ ارشد ندیم نے نا صرف سونے  کا تمغہ جیتا بلکہ پوری پاکستانی قوم کے دل بھی جیت لئےساتھ ہی نیا ورلڈ ریکارڈ بھی بنا لیا  اور پاکستانی ایتھلیٹ کے ورلڈ ریکارڈ بنانے پہ پوری دنیا حیران و پریشان ہو گئی ‘جیولین تھرو’ مقابلے کے فائنل میں انہوں نے 118 سالہ ریکارڈ توڑ دیا اور ایک نیا ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا ہے جو اب شاید اگلی صدی تک حکمرانی کرے گا۔ جیولین تھرو92.97 میٹر کے فاصلے پر پھینک کر اُس نے نہ صرف ورلڈ چیمپئن کا اعزاز اپنے نام کر لیا، بلکہ انفرادی مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ایتھلیٹ بن گئے۔یہ گولڈ میڈل اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ چالیس سال بعد پاکستان کو ملا ہے، چار دہائیوں تک ہم اولمپک کے پوائنٹ ٹیبل پر گولڈ میڈل کے آگے پاکستان کا نام لکھا دیکھنے کے لئے ترستے رہے۔ پوری قوم خوشی سے سرشار ہے۔ ایک نوجوان نے 25 کروڑ پاکستانیوں کے دل جیت لیے ارشد ندیم پہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پہ انعامات کی برسات بھی ہو رہی ہے  اور یقینا ارشد ندیم تعریف کے لائق ہے کہ جس نے اپنی محنت کے بل بوتے پہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا اور پوری پاکستانی قوم کی طرح ہماری  بھی یہی خواہش ہے کہ ارشد ندیم اور دیگر پاکستانی کھلاڑیوں کی  حوصلہ افزائی کرنی چاہیے  اور  سرکاری سطح پہ بھی سرپرستی اور تمام مراعات مہیا کی جائیں تاکہ ہمارے کھلاڑیوں کی تربیت بہتر طریقے سے ہو سکے اور مستقبل میں ہمیں ارشد ندیم جیسے بے بہا کھلاڑی مل سکیں۔

قوم کے اس بیٹے نے عزت رکھ لی،ورنہ دوسرے حضرات تو کانسی کے تمغے تک بھی نہ پہنچے  صرف ارشد نے یقین کے ساتھ تھرو کر کے حق ادا کیا 

میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم ارشد ندیم کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے، جس کا گزارا کھیتی باڑی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہوتا ہے اب اُس کے دن پھر گئے ہیں اُس کی محنت اور لگن نے اُسے زمین سے اُٹھا کے آسمان پر بٹھا دیا ہے۔ ارشد ندیم نے پہلے ایشین گیمز میں بھی پاکستان کا نام روشن کیا تھا، مگر اولمپک مقابلے دنیا کے سب سے بڑے اور سخت مقابلے سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ ان میں پانچوں براعظموں کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔پیرس اولمپک میں صرف سات پاکستانیوں کے دستے نے شرکت کی تھی اور اُن میں بھی صرف ارشد ندیم سے اُمید تھی کہ وہ پاکستان کے لئے کوئی میڈل لینے میں کامیاب رہیں گے تاہم یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ پوری نیا کے ایتھلیٹس کو پچھاڑ کر جیولین تھرو میں اول پوزیشن حاصل کر لیں گے
ارشد ندیم کی اس بے مثال کامیابی اور اُس کی عوام کی طرف سے بھرپور پذیرائی دیکھ کر نوجوانوں میں ایتھلیٹ بننے کا شوق بھی پیدا ہو گا۔ مگر یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مقام تک پہنچنا کوئی سہل نہیں ہے وہ اس لیے کہ دنیا بھر میں  نئے ٹیلنٹ ، کھلاڑیوں کی تلاش اور ٹریننگ کے لئے کھیلوں کے ادارے مسلسل کوشاں رہتے ہیں پھر جس کھلاڑی میں وہ یہ ٹیلنٹ دیکھتے ہیں  وہ سمجھتے ہیں آگے جا سکتا ہے، ملک کے لئے بڑی کامیابی سمیٹ سکتا ہے اُسے گویا گود لے لیتے ہیں،اُس کی پرورش، ٹریننگ، روز گار اور ہر آسائش کا خیال رکھتے ہیں تاکہ وہ پریشانیوں سے آزاد ہو کر اپنے کھیل پر توجہ دے۔

ارشد ندیم  کو جس صورتحال سے گزرنا پڑا  جیولین لینے کے لئے بھی مارا مارا پھرنا پڑا وہ کوئی آسان نہیں تھا صرف اس کی سچی لگن اور جنون جذبہ تھا جس نے اس مایوس نہ ہونے دیا۔  ورنہ  تو ہمارے ملک میں ہر ادارے کی  الٹی گنگا بہتی ہے سیاست سے لے کر کھیل تک ایک ہی حال ہے کھیلوں کے نام پر کام کرنے والے ادارے وزارتِ کھیل درحقیقت افسروں کا ایک سرکس ہے،جہاں سارا سال اُن کی عیاشیاں تو جاری رہتی ہیں، مگر کھیلوں کے میدانوں میں ہُو کا عالم طاری رہتا ہے ایک وقت تھا ہم صرف ہاکی اور سکوائش ہی میں نامور نہیں تھے، کشتی اور کبڈی جیسے کھیل بھی ہمارے ملک کی شہرت کا باعث تھے اور پھر ہماری یہ حالت ہوئی کہ ہم کسی ایک کھیل میں بھی واپس نہ آ سکے،جو حال ہماری سیاست کا ہوا وہی کھیلوں کا بھی ہوا کہ یہاں تنظیمی کشمکش شروع ہو گئی، فیڈریشن تو فیڈریشن ہم مقامی سطح پر بھی کئی کئی حصوں میں بٹ گئے۔ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں صرف انتظامی اور مالی کمزوریاں ہیں،کھیلوں کے لئے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے وہ کہاں اور کیسے خرچ ہوتا ہے،کسی کو علم نہیں،نہ ہی کبھی مختلف کھیلوں سے متعلق تنظیموں کے فرانزک آڈٹ ہوئے جو لازم ہوتے ہیں۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں –