بجٹ 2024 اور سیاسی منظرنامہ

76سال کی تاریخ بتارہی ہے کہ ہر سال  بجٹ کے نام پر مہنگائی کا ایک نیا طوفان آتا ہے اور غریب مزید دِگرگوں ہوتا چلا جاتا ہے۔  ہر سال بجٹ آتا ہے جس میں نئے اعدادو شمار دئیے جاتے ہیں۔بجٹ صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ نہیں ہوتا بلکہ قوم کی معاشی راہ متعین کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں بد قسمتی سے ہر جگہ الٹی گنگا بہتی ہے اس بار بھی اس نئے بجٹ کے بعد بھی غریب کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ حکومت نے ٹیکس محصولات کو بڑھانے کے لئے ذبح شدہ ٹیکس گزاروں کی گردن پر ہی دوبارہ چھری چلادی ہے، آج تک بجٹ میں جو بھی پالیسی بنائی گئی اس میں کبھی بھی کسی غریب کی غربت کم نہ ہوسکی بس غریب کے مسائل میں مذید اضافہ ضرور ہوا ہے،  اور اس بار بھی بجٹ پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے اس میں ٹیکس بڑھا دیئے گئے ہیں،ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا،کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھومتے ہوئے ٹیکس پر ٹیکس لگائے گئے ہیں اس سے معیشت میں کیا بہتری آئے گی۔ٹیکس جمع کرنے کے جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں وہ افسانوی لگتے ہیں،پہلے کون سے اہداف پورے ہوتے ہیں جو اس بار ہوں گے۔ ایف بی آر کی کرپشن کو ختم کئے بغیر ایسی اکانومی کو جو ڈاکومینٹڈ نہیں، اہداف تک رسائی کیسے دلائی جا سکتی ہے۔ حکومت کی کمزوریاں یا مصلتیں، وہ اُن طبقوں پر ہاتھ نہیں ڈالتی جو پوری معیشت کو ہائی چیک کئے ہوئے ہیں،ان میں ایک طرف اونچے طبقے کے مراعات یافتہ لوگ اور دوسری طرف وہ ریٹیلر شامل ہیں جو روزانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں،مگر قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع نہیں کراتے۔حکومت اُن کے خلاف اس لئے ایکشن نہیں لیتی کہ اس طرح بہت سے کالی بھڑیں اس کی ذد میں آجاتی ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا حکومت کے بس سے باہر ہے

اس سال کے بجٹ میں صرف دو ایسی مدات ہیں جن میں حکومت نے کچھ دیا ہے،ان میں ایک تنخواہیں اور دوسرا پنشن ہے،باقی سب تو ٹیکسوں کی کہانی ہے،جو  وزیر خزانہ نے سنائی ہے۔اتنے زیادہ ٹیکس لگانے کے باوجود جب یہ دعویٰ بھی کیا جائے کہ مہنگائی میں کمی آئے گی تو ڈھٹائی اور بے حسی کی داد دینی پڑتی ہے۔سیدھا سا فارمولا ہے جب ہر چیز پر سیلز ٹیکس لگے گا تو وہ مہنگی ہو گی،اُس کا بوجھ براہِ راست عوام پر پڑے گا، پھر یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے مہنگائی کم ہو چکی ہے اور مزید کم ہو جائے گی۔اس بار بجٹ فاءئلر اور نان فائلر کی گردانی میں پھنسا ہوا لگتا ہے۔ جو کہ سوشل میڈیا پر مضحکہ خیزصورت اختیار کر چکی یے، یہاں تنخواہ داروں پر چھ لاکھ سالانہ آمدنی سے زائد پر ٹیکس لگ جاتا ہے مگر وہ ڈاکٹر اور وکلاء جو روزانہ چھ لاکھ کماتے ہیں ٹیکس نیٹ سے باہر رہتے ہیں۔ویسے تو ہر بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط پر بنتا ہے تاہم اس بار تو واقعی لگتا ہے بجٹ کی شاید حکومت کو بھی اُس و قت خبر ہوئی جب اسمبلی میں پیش کیا گیا۔اجلاس اس طرح تاخیر کا شکار ہوا کہ بجٹ کی کاپیاں ایوان میں نہیں پہنچی ، پیپلزپارٹی تو کہہ چکی تھی کہ بجٹ کے سلسلے میں اُس سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔اس پر سوشل میڈیا پر کئی منچلوں نے  لکھا، خود حکومت سے بھی کسی نے مشاورت نہیں کی،یہ اور بات ہے کہ بجٹ تقریر کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو گلے لگا کر مبارکباد دی، کہنا وہ یہ چاہتے ہوں گے ”ساہنوں تے پتہ ای نئیں سی تسیں اینا اچھا بجٹ پیش کرو گے“۔ جب ملک کا بجٹ عوام کو خوش کرنے کی بجائے قرضہ منظور کرنے کی خاطر آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لئے بنایا جائے گا تو اُس میں عوام کے لئے ریلیف نام کی کوئی چیز کیسے ہو سکتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صنعتکار ہو، سرمایہ دار ہو، مل مالک ہو یا رئیل اسٹیٹ ایجنٹ، ہر کوئی اپنے اوپر لگنے والے ٹیکس کو بڑے بڑے ٹیکس وکیلوں کے ذریعے تو عدالتوں میں چیلنج کر کے سٹے آرڈر لے لیتے ہیں جبکہ جو ٹیکس عام صارفین کو منتقل  ہو رہے ہوتے ہیں، ان کے خلاف کبھی کسی مل اونر نے عدالتی سٹے نہیں لیا، اس اعتبار سے ہمارے ٹیکس نظام میں صرف وہی شخص پستہ ہے جو اس پیداواری زنجیر میں سب سے کمزور ہے، ایسالگتا ہے کہ ہماری ریاست طاقتور طبقات اور مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے بھاری بھرکم فیسیں ادا کرکے تگڑے وکیل کر لیتے ہیں جبکہ عام آدمی ہر چیز کی خریداری پر جبری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے

اب اس بجٹ کے ملک کی معیشت پر اور عوام پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ تو آنے والے مہینے ہی بتائیں گے۔ بہر حال حالیہ حکومت نے جو  پاکستان کا وفاقی بجٹ پیش کر کیا ہے حسب توقع ایک بڑے خسارے کا بجٹ ہے۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-