غزہ میں اسرائیلی جنونی جنگ کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا اور آج غزہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی اسرائیل کی اس جارحیت کو 247 دن مکمل ہوچکے ہیں، اس دوران کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب اسرائیلی جنگی جنون میں ڈوبی فوج نے نہتے فلسطینیوں پر آتش و بارود کی بارش نہ کی ہو۔ اب تک جنگ کے خاتمے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے انسانیت دم توڑ رہی ہے ظلم اپنی انتہا پر ہے عالمی طاقتیں اسرائیل کی جارحیت پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں لگتا ہے پوری دنیا اسرائیل کے سامنے بے بس ہے اب تک غزہ میں 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں میں 36 ہزار 731 فلسطینی شہید ہوچکے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں مجموعی طور پر 83 ہزار 530 فلسطینی زخمی ہوئے۔
غزہ میں اس وقت ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ غیر مسلم ممالک اور مغربی ممالک ان وحشیانہ کارروائیوں کی کھل کر مذمت کررہے ہیں‘ ان ممالک کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
مگر دنیائے اسلام مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ وہ اب تک صرف زبانی مزمت سے کام چلا رہے ہیں عملی طور پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی اقدام سے گریز کر رہے ہیں، اسی طرح 43 ممالک کی اسلامی فوج تو میرا خیال ہے جھولیاں پھیلا کر اسرائیل کو بددعائیں دینے کے لئے تشکیل دی گئی ہے
تمام مسلم ممالک کی بےحسی پر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔ مسلمانوں کے پاس تیل کے سمندر تھے جبکہ غزہ کے ہسپتالوں اور ایمبولنسوں کے لیے تیل نہیں تھا مسلمانوں کے پاس پچاس لاکھ سے زائد فوج تھی جدید جنگی جہاز اور میزائل تھے مگر وہ ایک بھی فوجی غزہ نہ بھیج سکے اور نہ غزہ میں قتل عام رکوا سکے۔ اس دوران چند دنوں کے لیے فائر بندی ہوئی لیکن مستقل جنگ بندی ابھی تک نہیں ہو سکی۔اقوام متحدہ اور طاقتور اقوام اسرائیل کوجارحیت سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ غزہ میں جنگ شروع ہوئے 7ماہ ہونے والے ہیں‘غزہ ایک چھوٹا سا علاقہ ہے‘ اس کے پاس جنگی طیارے ہیں اور نہ ٹینک ہیں۔اس صورت حال کو دیکھا جائے تو اسرائیل ایک بے دست و پا علاقے کے شہریوں کو کئی ماہ سے نشانہ بنا رہا ہے۔
گذشتہ دنوں ظلم اور بربریت کی تمام حدیں کو رفح میں موجود ایک پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں 75 سے زاہد فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔
صیہونی فوج نے رفح کے پناہ گزین کیمپ میں بمباری اور آگ بھڑک اٹھی، آتشزدگی کے باعث بڑی تعداد میں شہری جھلس کر شہید ہوگئے جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں ۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں آگ لگی اور بیشتر افراد نے موقع پر ہی دم توڑ دیا،
خیال رہے کہ اسرائیل نے ہی اس جگہ کو محفوظ انسانی علاقہ قرار دیا تھا اور عام شہریوں کو یہاں منتقل ہونے کو کہا تھا۔ بعدازاں اسرائیلی وزیرِ اعظم نے پناہ گزین کیمپ پر حملے کو ’افسوسناک کوتاہی‘ قرار دیا تھا۔ تاہم پناہ گزیں کیمپوں پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ تاحال تھم نہ سکا بلکہ اس میں مذید شدت آگئی ہے
تاہم رفح پر اسرائیلی حملے کے بعد سے سوشل میڈیا پر “All eyes on Rafah تمام نظریں رفح پر” یہ تصویر وائرل ہونا شروع ہوئی اور لوگوں نے اسے جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ شیئر کرنا شروع کیا۔
اس تصویر میں استعمال ہونے والے الفاظ ’تمام نظریں رفح پر‘ پہلی مرتبہ رواں سال فروری میں غزہ اور غربِ اردن کے لیے عالمی ادارۂ صحت کے نمائندے رِک پِیپرکورن کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کے دوران استعمال کیے گئے تھے جب اسرائیل نے جنوبی غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔ انھوں نے اس دوران بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اب تمام نظریں رفح پر ہیں۔‘
اس کے بعد ان الفاظ کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی متعدد تنظیموں اور کارکنان کی جانب سے اپنی سوشل میڈیا کیمپینز میں ہیش ٹیگ کی صورت میں استعمال کیا گیا تھا۔ان تنظیموں میں سِیو دی چلڈرن، آکسفیم اور جیوز وائس فار پیس شامل ہیں۔ تاہم یہ تصویر ان ہیش ٹیگز کے مقابلے میں کہیں زیادہ شئیر کی گئی ہے۔ اس تصویر کے جواب میں اسرائیل کے حامی گروپس اور افراد کی جانب سے ایک اور اے آئی تصاویر شئیر کی جا رہی ہے جس میں حماس کے ایک جنگجو کو ایک بچے پر بندوق تانے دیکھا جا سکتا ہے اور اس پر لکھا ہے کہ ’آپ کی آنکھیں سات اکتوبر کو کہاں تھیں؟‘
آخر جوں جوں اس تصویر اور سلوگن سے مذمتی زور پکڑا اس طرح مختلف لوگوں کے درعمل بھی سامنے آئے
تاریخ عالم میں کبھی اس طرح کا ظلم نہیں ہوا جس کا شکار آج فلسطین بن رہا ہے اتنی کثیر تعداد میں شہادتیں جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل ہیں آج دنیا سے انصاف اٹھ چکا ہے عالمی امن و انصاف اپنی افادیت کھو چکا ہے غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد کو امریکا ویٹو کر چکا ہے اور اس طرح عالمی امن و سلامتی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے آج فلسطین اور اسرائیل کی جنگ اس مقام پر پہنچ چکی ہے جس سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو آنے والے دنوں میں اس لڑائی کا دائرہ دوسرے ممالک تک پھیل سکتا ہے عالمی طاقتوں اسلامی ممالک اور اور دنیا کے ٹھیکیداروں کو اب سوچنا ہو گا اور غزہ میں انسانیت کی تزلیل کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔۔۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-