پٹواری کی لال کتاب

پٹواری کی لال کتاب سے کمپیوٹر تک’ انگریز کے مال سے بد نام پٹوار تک یا یہ کہہ لیں کہ انگریز کے مال سے آج کے کمپیوٹر تک کہ سفر کو بدنام زمانہ پٹوار نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ آج کہا جاتا ہے کہ اس پرانے اور بوسیدہ نظام مال کو تبدیل کر دیا گیا ہے مگر اس سب کے باوجود حقیقت تو یہ ہے کہ انگریز کےنظام مال سے آج کمپیوٹر تک پٹواری سے ریوینیو سسٹم تک ایک صدی گزر جانے کو ہے مگر یہ سسٹم آج بھی جوں کا توں بدحالی کا شکار ہے۔

یہاں سوال تو یہ بنتا ہے کہ جو ریونیو سسٹم انگریز سرکار کا دیا ہوا وہ بہترین سسٹم کیوں تباہ ہوا؟ سب سے اہم سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ ہم ان تک بندوبست اراضیات دے آخر آج تک گریزاں کیوں۔۔۔؟

آج ہم 21 صدی کے نصف دہائوں پر کھڑے ہیں مگر لفظ ‘پٹواری’ آج بھی پاکستان میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔۔۔ گریڈ کے اعتبار سے پٹواری کا عہدہ معمولی سا ہے۔ لیکن بڑے بڑے پٹواریوں کے آگے بےبس دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بھی پٹوار خانے اگر کبھی جانے کا اتقاق ہو تو ایک سا وہی رواتی ماحول دکھائی دے گا وہی ایک مختص کمرہ جہاں نگاہ وہاں پڑے بڑے رجسڑ پر پڑے گی جن میں دوسروں کی قسمت لکھی ہوتی ہے یہ وہی “لال کتاب” جس میں جو لکھا گیا وہ پتھر پر لکیر ہو گیا۔

جبکہ پٹواری صاحب کی زبان سے خیر کم جبکہ منفی کلمات زیادہ نکلتے معلوم ہوتے ہیں۔

یہاں حیرانگی تو آپ کو تب ہوگی یا بس اب اس میں اتنی جدت ضرور آگئی ہے کہ جب ان پٹوارخانوں میں انگریزی بولتے اور کمپیوٹر پر کام کرتے  ہوئے پٹواری دکھائی دیں گے اور جو یہ کہتے ہیں کہ پٹواری کلچر کو تبدیل کر دیا گیا ہے وہ یہ ہی تبدیلی ہے اس کے سواہ کچھ نہیں۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-