حکومت سازی کا امتحان ۔۔۔۔۔ کون ہوگا حکمران ؟

عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے ۔ن لیگ اور پی پی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔مولانا فضل الرحمن سے بھی رابطہ جاری ہے ۔باقی سیاسی جماعتوں سے بھی مذاکرات ہو رہے ہیں ۔اس سلسلے میں کوششیں انتہائی زوروں پر ہیں۔سیاسی بیٹھکیں سج چکی ہیں۔اب تک کی جو صورتحال ہے اس کے مطابق کسی سیاسی جماعت کو اتنی اکثریت حاصل نہیں ہے کہ خود سے ہی اکیلے میں اپنی حکومت بنا سکے جبکہ پی ٹی آئی آزاد امیدوار ویسے ہی حال و بے حال ہیں ۔کسی قابو میں نہیں ہے کہ مل بیٹھیں ساتھ اور حکومت بنا سکیں ،زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اڑنے کے لیے پروان بھرچکے اور اس انتظار میں ہیں کہ اڑیں تو کس مڈیر پر بیٹھیں ،کسی نہ کسی جماعت کے حصے میں آنے کے لیے بے تاب بیٹھے ہیں ۔

ان میں صرف چند ایک ہی رہ جائیں گے جو اپنی پارٹی کے ساتھ مخلص رہیں گے وگرنہ آزاد امیدواران کی اڑان کا پہلا اور اہم پرندہ این اے 121 سے قادر وسیم اڑ کر اپنی اس جگہ پہنچ چکا ہے جہاں کا خمیر تھا ۔ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟۔راقم الحروف کا نہیں خیال کہ تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کو ادھر ادھر ہونے سے بچا سکے ۔تحریک انصاف سے اس حوالے سے ہاتھ ہوتا نظر آتا ہے چہ جیکہ تحریک انصاف اس وقت جس بلندی پر ہے اسے چھوڑ کر جانے والے بھی خود سے ہی ہاتھ کریں گے مگر کیا کریں کہ اقتدار چیز ہی ایسی ظالم ہے جسے لگ جائے اس کا کچھ چھوڑتی ہی نہیں ہے ۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار تتر بتر ہوتے نظر آتے ہیں اور پی پی اور ن لیگ جوائن کر لیں گے۔رہے سہے آئی پی پی میں بھی جا سکتے ہیں۔باقی بچے ہوئے بھی تحریک انصاف کے کس کام کے ،پی ٹی آئی حمایت یافتہ حکومت وفاق یا پنجاب میں بنتی نظر نہیں آتی ہے۔خیبر پختون خواہ میں کسی جماعت کے سہارے بنا لیں تو الگ بات ہے۔اب تک کی صورتحال کے مطابق لگتا ہے کہ ن لیگ، پی پی والے اپنے باقی اتحادیوں کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم 1 کی طرح پی ڈی ایم 2 حکومت بنا ہی لیں گے جس میں چند ایک تبدیلیوں کے ساتھ پورا منظر نامہ سابق پی ڈی ایم حکومت جیسا ہوگا،وہی لوگ ہوں گے اور ویسا ہی ماحول ،بس ذرا وزارتیں تبدیل اور آگے پیچھے ہو سکتی ہیں ۔میں نہ مانوں ،میری ہی مانوں کی رٹ لگانے والے افراد ایک اچھے بچے کی طرح پہلی کی سی صورتحال میں ایڈجسٹ ہو جائیں گے ،نہ میں رہے گا نہ تو ،سبھی پی ڈی ایم 2 حکومت بنائیں گے جس میں وزارت عظمی کا قرعہ فال پیپلز پارٹی کے بلاول کے نام نکلنے سے رہا۔

اگر آدھی ٹرم تم آدھی ٹرم ہم فارمولا بھی طے ہو جائے جس کے امکانات انتہائی کم ہیں پھر بھی وزیراعظم بننے سے رہے ،اگلا وقت کس نے دیکھا ہے شائد کے اس کی کبھی نوبت ہی نہ آئے۔یہاں پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم نواز شریف کی گنجائش نہیں بن رہی،انوکھا لاڈلا بلاول تو پھر بہت دور ہے۔بلاول وزارت کے لیے تو کسی طرح قابل بنائے جا سکتے ہیں وزیراعظم کے لیے کسی طرح سوٹ ایبل بالکل نہیں ہے۔ شہباز شریف ہی وزیراعظم پاکستان بنتے دکھائی دیتے ہیں اور یہی وہ شخصیت ہے جو سب پارٹیوں کو قابل قبول اور سب کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی چلنا خوب جانتے ہیں ۔بلاول کے مقابلے میں شہباز شریف ایک بہترین آپشن ہیں ۔رہی بات پنجاب کی تو مریم نواز وزیراعلی آ سکتی ہے۔

سب کچھ پہلے سے طے ہے۔ اس کے علاوہ ہر طرف سے ہوتی باقی ساری باتیں ایک وقت کا ضیاع اور بےکار باتیں ہیں جس میں کوئی بھی حقیقت یا جان نہیں ہے۔دل بہلانے کے لیے غالب خیال اچھا ہے ۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-