عدم اعتماد سے بلے کے نشان تک

پاکستان کا اداراتی و عدالتی نظام بڑا ہی عجیب ،کمزور اور ناقابل اعتبار ہے ۔یہاں نظریہ ضرورت کے تحت کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی ہو سکتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو اور جس کی کسی دوسرے ملک میں نظیر بھی شاید ہی ملے ۔اپ عمران حکومت کو ہی دیکھ لیں کہ کیسے کامیابی سے چل رہی تھی کہ کچھ اندرونی و بیرونی سازشیں ہوئیں ،ایک سائفر آیا ،معاملہ بگڑا اور پھر تحریک عدم اعتماد آئی اور پی ٹی آئی حکومت نے بذریعہ اسپیکر قومی اسمبلی وسیع تر ملکی مفادات میں امریکی مداخلت بتلا کر وزیراعظم کی ایڈوائس پر اپنی حکومت گرا دی جس کی منظوری صدر مملکت عارف علوی نے بھی دی۔ پاکستان میں حکومت گرتے ساتھ ہی پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور اس کی آواز چاغی سے لے کر دہلی اور دہلی سے لے کر واشنگٹن تک سنی گئی۔ایک بھونچال آ چکا تھا ،رات گئے آنافانا عدالتیں کھلیں اور فیصلہ واپس ہوا ،کہا گیا کہ ” تحریک عدم اعتماد آ چکی، ایسا کچھ نہیں ہو سکتا،سب کچھ کالعدم” یوں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران چلے گئے اور شہباز شریف آگئے ۔تب سے لے کر اب تک جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ کیسے کیسے عجب تماشے یہاں ہوئے، پھر پنجاب حکومت پر شب خون مارا گیا ،ایک مستحکم حکومت کو قومی طرز کی حکومت کی طرح کمزور کیا گیا ،عثمان بزدار چلے گئے،حمزہ سرکار آگئی ۔حکومتی معاملات یوں ہی چلتے رہے ،ساتھ ساتھ عدالتی بیٹھکیں بھی لگتی رہیں،حکومتی سطح پر عجب کام اور اوچھی حرکتیں ہوتی رہیں،وزیراعلی ووٹنگ ہوئی،ق لیگ ووٹ مسترد،حمزہ شہباز وزیراعلی منتخب کی صدائیں چلتی رہیں ،پھر عدالتی فیصلے کے نتیجے میں کہ پرویز الہی اعتماد کا ووٹ لیں اور پھر وہ اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے اور وزیر اعلی بن گئے اور حکومت پھر سے عمران خان کے ہاتھ میں آگئی –

پھر وہ وقت آیا کہ عمران خان کے حکم پر پنجاب و خیبر پختون خواہ حکومتیں بھی گرا دی گئی ،نگران سیٹ اپ بنا ،الیکشن کا معاملہ لٹک گیا ،14 مئی کو بھی نہ ہوئے اور ابھی تک نہیں ہوئے ۔قومی اسمبلی میں تو تحریک عدم اعتماد کا پہلے سے آ جانا جواز بنا اور حکومت بحال کر کے عدم اعتماد لا کر شہباز سرکار کو لاد دیا گیا مگر پنجاب، خیبر پختون خواہ میں تو ایسی صورتحال نہ تھی وہاں الیکشن اتنا زیادہ لیٹ کرنے کے لیے کیا کیا تاویلات گھڑی گئی،کیسے مناسب جواز تھا ؟آئین پامال،قانون پامال،افراد کے حقوق پامال ۔۔۔۔۔طویل نگران سیٹ اپ ابھی تک بیٹھا ہوا ہے کیسے؟کس طرح ؟ یہ کیسے ٹھیک کہلا گیا ؟یہاں معزز عدلیہ کیسے برداشت کر گئی ؟چیف الیکشن کمیشن کیسے سہہ گیا؟کیا یہاں پر عدالتیں جواب دہ نہ ہیں ؟الیکشن کمیشن قصوروار نہ ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم نے من مرضی کا ماحول بنائے طاقتور قوتوں کے سائے تلے من چاہے اصول و قاعدے کلیے بنا لیے ہیں کہ جس میں صرف اور صرف جواز ہی باقی رہ گئے ہیں ۔آئین و قانون کی بالادستی کہیں بھی دور دور تک نظر نہیں. آتی ہے ۔یہاں پی ٹی ائی الیکشن امیدوار کھجل خوار ہوتے رہے ،ان کے ہاتھوں سے کاغذات نامزدگی تک چھینے جاتے رہے ،فائل نہیں کرنے دیے جاتے رہے ،کاغذات چھیننے اور بندے اٹھانے تک کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں مگر آئین و قانون کے پاسدار یکسر سوئے رہے ،کسی نے بھی کچھ نہ کہا، بولا،حکم دیا۔اب جا کر ان کی طرف سے کچھ مثبت باتوں کا آنا گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے جیسا ہے ۔یہ سب کیسے ہوا ،کیوں ہوا اور اب تک الیکشن نہ ہونے کی وجہ کیا ہے ؟کون نہیں جانتا ہے کہ کیا ہے ؟تحریک انصاف کو عدم اعتماد سے لے کر اپنی قومی و صوبائی حکومت گرانے تک کے مرحلےسے لے کر اب تک چین و سکون بالکل ملا نہیں ہے۔اوپر سے سانحہ نو مئی کا نزلہ بھی ان گرا ،جس نے ان کی رہی سہی صورتحال کا بھی برا حال کر دیاہے ۔

غفلت ریاست و اس کے اداروں کی تھی کہ اپنی حماقت سے یہ سب کروا بیٹھے اور ذمہ داری عمران گرفتاری پر احتجاج کرتی ساری جماعت پر ڈال دی جو انصاف نہیں ہے مگر صاحب اقتدار و اختیار جو مرضی چاہیں کریں،جس کی سزا تب سے لے کر اب تک تحریک انصاف خوب بھگت رہی ہے۔ وہ تو سو بھگت ہی رہی تھی کہ تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ سے کروانے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا جسے تحریک انصاف نے کروایا مگر ٹیکنیکل وجوہات کی بنا کر مسترد کر دیے گئے اور بلےسے محروم کر دیا گیا۔اگر یہ انصاف ہے تو پاکستان کے تو کوئی بھی جنرل و ضمنی الیکشن صاف شفاف نہیں ہوئے تو اس پر کیا کہیں گے ؟کیا کاروائی ڈالیں گے ؟انٹرا پارٹی الیکشن شفافیت تو پھر بڑی دور کی بات ہے۔کون نہیں جانتا کہ یہاں پارٹیوں میں صاف شفاف انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا رواج نہیں ہے۔ہر پارٹی میں وہی گلے سڑے نظام کے موروثی جماعتوں کے موروثی لوگ ہی قابض چلے آرہے ہیں ماسوائے جماعت اسلامی کہ جو صرف اصلی اور حقیقی الیکشن کرواتی ہے وگرنہ باقی جماعتوں میں ہوتے انٹرا پارٹی الیکشن کی حقیقت کیا ہے سبھی جانتے ہیں ۔تحریک انصاف سے اس کی شناخت لے لینا کہاں کا انصاف ہے ؟کیا ہی اچھا ہوتا کہ “بلا” نشان دے کر فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتے،جمہوریت اور جمہوری پارٹیوں کو مضبوط کرتے ۔اس فیصلے سے پاکستان کی سبکی ہوئی ہے بلکہ اگرکہا جائے تو یہ جمہوریت کی توہین ہے کہ ایک مقبول عوامی جماعت کو الیکشن سے باہر کر دیا گیا ہے ۔کیاعجب تماشا ہے کہ سبھی نامقبول نام پا چکے ہیں اور مقبول سلاخوں کے پیچھے ہے ۔نام کھرچ،مقام کھرچ ،نشان کھرچ معاملہ چل رہا ہے ۔ابھی جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا خان صاحب اور ان کی اہلیہ کو سزائیں بھی ہو چکی ہیں ۔کہیں یہ 2018 ء سے پہلے کی نواز شریف و اس کی فیملی پر فلمائی گئی فلم جیسا ایک سین ہی تو نہیں کہ ایسا کر کے اس دور کو پھر سے عمران و اہلیہ جیل اندر شکل میں دہرایا گیا ہے اور نام مکافات عمل دیا گیا ہے ۔اگر ایسا ہے تو جمہوریت میں اس طرح کا دی اینڈ اخر کب تک ؟اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ایسا کر کے وہ خان کی مقبولیت کو عوام میں کم کر سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں جس کو جتنا بھی دبایا گیا ہے وہ اتنا ہی پہلے سے زیادہ نکھر کر سامنے آیا ہے ۔بلا سے محروم ہو گئے تو کیا ہوا ہے کھلاڑی تو ابھی باقی ہے ۔ایک نہیں تو دوسرا، دوسرا نہیں تو تیسرا،سبھی خان کے ہیں اور خان پاکستان کا ۔عمران خان کے امریکہ کو ایبسولیوٹلی ناٹ کہنے کے بعد اب الیکشن رزلٹ جو بھی آئے حقیقتا عوام اور خان ایک ساتھ ہیں اور اصل مقابلہ پی ڈی ایم بمقابلہ عمران خان ہے اور ایسا ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے اور ایسا صرف اور صرف ملکی محبت اور امریکی نفرت سے ہی ممکن ہوا ہے ۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-