الیکشن یا سلیکشن

ملک میں اس وقت جو حالات ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ انتخابات کا ماحول ہے، ماضی میں ہم عام انتخابات کے موقع پر جو فضاء دیکھتے تھے، وہ اب کہیں نظر نہیں آ رہی۔یہ تاثر بُری طرح جنم لے رہا ہے کہ الیکشن کی بجائے سلیکشن کا ماحول تقریبا بن چکا ہے۔

پی ٹی آئی کو بےنشان اور بلا چھن جانے کے بعد اب منصوبہ سازوں نے الیکشن کا جو ڈیزائن بنایا ہے اگر الیکشن من وعن ویسے ہوگئے تو یہ ملکی۔تاریخ کہ متنازعہ ترین الیکشن ہو گے جس میں پاکستان کی  انتخابات میں اب 15 دن کی دوری پر ہیں، جب ایک بڑی خبر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے حوالے سے آتی ہے جو افسوسناک ہے،اب لیول پلینگ فیلڈ ایک خواب ہے۔ کیا سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن بتا سکتے ہیں کہ باقی سیاسی جماعتوں کے انٹراپارٹی الیکشن فئیر ہیں؟؟،سوائے جماعت اسلامی کے تمام پارٹیوں کے انٹرا پارٹی الیکشن ایک مصنوعی، سکرپٹڈ کاروائی ہوتی ہے۔اس فیصلے سے پاکستان کے متنازعہ ترین الیکشن کی بنیاد رکھ دی گئی۔

اس کے ساتھ ہی پاک ایران اچانک پیدا ہونے والی کشیدگی سے یہ افواہیں گرم ہو گئی تھیں کہ شاید یہ تنازعہ طول پکڑے تو 8فروری کو ملک میں ہونے والے انتخابات ملتوی ہو جائیں تاہم اب قومی قیادت کے اقدامات کی بدولت ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر آگئے ہیں وہیں یہ خطرہ بھی ٹل گیا ہے
وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے ہر طرف سے الیکشن کی شفافیت کے حوالے سے علیحدہ سوالات اُٹھ رہے ہیں۔جو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ظاہر ہے سیاسی جماعتیں متحرک ہوتی ہیں تو انتخابی ماحول بنتا ہے۔تحریک انصاف کومتحرک ہونے نہیں دیا جا رہا،تحریک انصاف کو جلسہ کرنے دینا ہے اور نہ امیدواروں کو الیکشن مہم چلانے دینی ہے، اِس سے تحریک انصاف کو نقصان نہیں فائدہ ہو رہا ہے اِس وقت عمومی تاثر یہ ہے صرف مسلم لیگ (ن) کو ہر قسم کی آزادی ہے، باقی جماعتوں سے امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات درست ہے اگر اسے ایک روایت بننے دیا گیا تو وقت آنے پر دوسری سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ(ن) بھی اُس کا نشانہ بنے گی۔ آج مسلم لیگ(ن) کا بیانیہ یہ ہے کہ وہ  ترقی کا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے رُکا تھا

پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کچھ نئی باتیں کر رہے ہیں، اُن کا یہ کہنا بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ آج جو کچھ مسلم لیگ(ن) کے مخالفین سے سلوک ہو رہا ہے وہ کل مسلم لیگ(ن) کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ذاتی دشمنی کی سیاست کو دفن کرنے کی انہوں نے جو بات کی ہے، وہ کم از کم سیاستدانوں کو پلے باندھنی چاہئے، اِس کا فائدہ کبھی سیاستدان نہیں اُٹھاتے بلکہ کوئی اور اُٹھا کر اپنا مقصد پورا کرتا ہے۔
یوں اس دبی دبی فضاء کی وجہ سے الیکشن کے8فروری کو انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔

تاہم  اب  وقت کے ساتھ سیاسی گہماگہمی آخر شروع ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے مسلسل جلسے ہو رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تحریک انصاف کو بھی اسی طرح آزادانہ جلسے کرنے کی اجازت دے دی جائے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ انتخابات کو اگر شفاف بنانا مقصود ہے تو انتخابی مہم میں بھی سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنا چاہیے اگر تحریک انصاف کو اسی طرح دباﺅ کا سامنا رہا اور اس کا ایک جلسہ بھی نہ ہو سکا تو ایسے سوالات جنم لیں گے، جن کا جواب دینا آسان نہیں ہوگا۔ اس وقت بھی دو طرح کے شکوک و شبہات منڈلا رہے ہیں۔ اول یہ کہ انتخابات اعلان کی گئی تاریخ کو منعقد ہوں گے؟ اور دوسرا کیا انتخابات شفاف اور غیرجانبدارہوں گے؟ اس سوال کا جواب تو شاید آنے والے چند دنوں میں مل جائے کہ انتخابات وقت مقررہ پر ہوں گے یا نہیں، کیونکہ اچانک کسی جواز کے بغیر انتخابات کا التواءآسان بات نہیں۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، اس کا جواب تو 8فروری کو ہی ملے گا۔پولنگ والے دن الیکشن کمیشن کے انتظامات اس امر کا فیصلہ کریں گے کہ انتخابات کس ماحول میں ہو رہے ہیں۔ سب سے اہم مرحلہ وہ ہوگا جب گنتی شروع ہوگی اور نتائج مرتب کئے جائیں گے۔ نتائج کے بروقت اعلان کے لئے الیکشن کمیشن نے کیا فول پروف انتظامات کئے ہیں، اس پرانتخابات کا سب سے زیادہ انحصار ہے۔ اگرماضی کی طرح غلطیاں دہرائی گئیں، آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا یا آج کے  نتائج 48 گھنٹوں بعد تک بھی سامنے نہ آئے تو ساری مشق رائیگاں جائے گی جس کے مضر اثرات ہوں گے ، لوگوں میں یہ شبہات بھی موجود ہیں کہ جس طرح تحریک انصاف کو جلسے نہیں کرنے دیئے جا رہے یا کاغذات جمع کراتے وقت اس کے امیدواروں کی پکڑ دھکڑ ہوتی رہی ہے، اسی طرح تحریک انصاف کے کیمپوں سے ووٹ کی پرچی بنوانے اور ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے الیکشن کمیشن نے کیا اقدامات کئے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ ایسی صورت میں ووٹر کسی دوسری جماعت کے کیمپ سے اپنے ووٹ نمبر کی پرچی بنوا سکتے ہیں۔اندر ووٹ تو خفیہ جگہ پر مہر لگانے کے بعد ڈالا جائے گا۔

اس وقت سیاسی منظر نامے پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان مقابلہ ون ٹو ون ہو چکا ہے۔
اِس وقت سب سے متحرک پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلال بھٹو زرداری دکھائی دیتے ہیں جو چاروں صوبوں میں زوردار مہم چلا رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری اس حوالے سے بازی لئے ہوئے ہیں وہ مسلسل شیر کو نشانہ بنا رہے ہیں اور عمران خان نیز تحر یک انصاف کا تو بھول کر بھی نام نہیں لیتے۔وہ شیر کو لاہور میں گھس کر مارنے کی بات کررہے ہیں  یہاں دلچسپ بات یہ ہے مریم نواز کا آج بھی اول و آخر نشانہ تحریک انصاف ہے۔ وہ پیپلزپارٹی یا بلاول بھٹو زرداری کا ذکر تک نہیں کرتیں۔ ایک طرف تحریک انصاف کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں، بولنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے جلسے ہوتے ہی نہیں کہ ٹی وی چینلوں پر دکھائے جا سکیں۔ ایک عمران خان کی آواز اس وقت آ جاتی ہے، جب وہ اڈیالہ جیل میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگوکرتے ہیں۔اپنی حالیہ گفتگو میں بھی انہوں نے یہی کہا ہے ملک کے تمام مسائل کا حل شفاف انتخابات ہیں۔ اب ایک لیڈر جو خود جیل میں بند ہے۔ اس کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں، اس کی جماعت کو انتخابی نشان نہیں ملا، امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں مل رہی، اگر یہ کہتا ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات ہی ہر مسئلے کا حل ہے تو اس کی بات میں وزن بھی ہے اور اس کے حوصلے کی داد بھی دینی چاہیے۔ آج ہم انتخابات میں اسی شک و شبے کے ساتھ جا رہے ہیں کاش ہم اس یقین کے ساتھ اپنا ووٹ ڈالیں کہ جسے ووٹ ڈالا ہے اسے ہی ملے گا تو سارے جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-