ماضی کیرئیر،2024ء الیکشن کا نبرداأزما منظرنامہ

پاکستان کی تاریخ میں 11 انتخابات ہو چکے ہیں مگر ان میں سے ہر چناؤ کے بارے میں مخالف سیاسی جماعتیں یہ الزام لگاتی آئی ہیں کہ ان میں کسی نہ کسی سطح پر دھاندلی ہوئی ہے یا پھر کسی بھی شہری کے لیے اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنا عام سی بات ہے لیکن اس پسندیدگی کو بنیاد بنا کر کسی دوسری سیاسی جماعت کے حامی کو ذاتی بنیادوں پر ہدفِ تنقید بنانا، لڑنا جھگڑنا اور یہاں تک کہ مخالف سیاسی نظریہ رکھنے والوں سے بات چیت کرنا ہی چھوڑ دینا شاید پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔دوسروں کے لیے عدم برداشت، بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا، یہ تمام وہ رویے ہیں جنھوں نے پاکستان میں عوام کو تقسیم کر رکھا ہے اور بظاہر وقت کے ساتھ یہ رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔اس شدید تقسیم کو کوئی صیحح سمجھتا ہے تو کسی کی رائے یہ ہے کہ یہ رویے ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں جو نہیں ہونا چاہئے اس لئے پاکستان میں انتخابی روایات کچھ زیادہ مثالی نہیں اب بھی پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد اب چند دنوں کی دوری پر ہے۔ یہ ملک کی تاریخ میں بارویں عام انتخابات ہیں جس کے نتیجے میں عوام کو حق رائے دہی کے تحت اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجنے کا موقع ملے گا اور امیدوار نمائندوں نے بھی اپنااپنا ڈیجیٹل مہم میدان سجا کر انتخابی مہمات کا أغاز کیئے ہوئے ہیں تھوڑاساعرصہ پیچھے جائے تو یہ مہمات سیاسی ریلیاں، کتابچے، اور گھر گھر مہم تھی لیکن اب جدید ترین ڈیجیٹل حکمت عملیوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا کیمپین کا آغاز کردیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات پر لائیوسٹریم کی جارہی ہیں۔ جلسے جلوس بھی سوشل میڈیا پر لائیو دکھائے جارہے ہیں۔ جماعتوں اور امیدواروں نے اپنی توجہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مرکوز کر دی ہے۔ 2024 کے انتخابات میں ڈیجیٹل انقلاب کے بنیادی پہلوؤں میں اہم پہلو ڈیٹا پر مبنی تجزیہ ہے۔ سوشل میڈیا کے عروج نے سیاسی مصروفیات کو نئی شکل دی ہے۔ فیس بک، ٹویٹر/ایکس اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر امیدوار ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے نظر آرہے ہیں۔

سیاسی جماعتیں ووٹروں کے رویے کو سمجھنے، انتخابی مہم کی حکمت عملیوں اور انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کی طاقت کا استعمال کر رہی ہیں۔ مختلف ڈیموگرافکس کے ڈیٹا سیٹس کی بڑے پیمانے پر باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ اعداد و شمار کے تجزیات کے ذریعے، سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کو توڑ کر نئے سانچے میں ڈھال رہی ہیں، جس سے وہ سیاسی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیوں پر فوری ردِ عمل ظاہر ہونے اور اس کے ادراک کے بھی قابل ہو گئی ہیں موجودہ حالات پاکستان میں بڑی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جس کی قیادت گوہر علی خان، پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل (این))، کی قیادت سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) جس کی قیادت سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں سمیت تمام چھوٹی، بڑی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار انتخابی مہم کی تیاریوں کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن جلسوں سمیت سیاسی سرگرمیوں میں واضح کمی نظر آ رہی ہے۔پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس مشاہدے سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیاسی رہنماوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں انتخابی گہما گہمی کم ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں انتخابات سے متعلق لوگوں میں غیریقینی، لوگوں کا مبینہ طور پر سیاست سے اعتماد اُٹھ جانا، موسم کی سختی اور ایک بڑی سیاسی جماعت کا انتخابی دنگل سے بظاہر باہر ہونا ہے دوسری طرف جاری کردہ ہدایات الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان کے بارہ کروڑ انہتر لاکھ اسی ہزار دو سو بہتر افراد بطور ووٹر رجسٹر ہیں۔الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 26 کے مطابق ایک شخص انتخابی علاقے میں بطور ووٹر اندراج کا حقدار ہو گا اگر وہ؛(1) پاکستان کا شہری ہے(2) عمر 18 سال سے کم نہ ہو(3) انتخابی فہرستوں کی تیاری، نظرثانی یا تصحیح کے لیے دعوؤں، اعتراضات اور درخواستوں کو مدعو کرنے کے لیے مقرر کردہ آخری دن تک کسی بھی وقت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ رکھتا ہو(4) کسی مجاز عدالت کی طرف سے اسے ناقص دماغ قرار نہ دیا گیا ہو(5) سیکشن 27 کے تحت انتخابی وضاحت/نوٹ: نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ کو بطور ووٹر رجسٹریشن کے مقصد کے لیے یا الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے درست سمجھا جائے گا، باوجود اس کے کہ اس کی میعاد ختم ہو جائے وغیرہ کی شرائط ووٹرکیلئے اہل ہونا ضروری ہے اگر دیکھاجائے تو پاکستان کی تاریخ کا الیکشن حصہ الیکشن سے قبل اور بعد میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔

’ہم نے ماضی کی جو غلطیاں کی ہیں، وہ آج کل میں کی جانے والی غلطیوں کا جواز نہیں ہونا چاہییں الیکشن شفافیت پر مبنی ہو اسطرح اگر ہم نے عام انتخابات کو عملی پریکٹیکل کے بجائے محض ایک سیاسی پریکٹیکل کرنا ہے تو نہ صرف یہ جمہوری نظام کیساتھ ظلم ہوگا بلکہ ملک کی بنیادیں بھی کھوکھلی کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ ناکام تجربہ1951ء میں أزمایاگیا اور 1960 ء میں بھی صدارتی انتخابات بھی پریکٹیکلی طورپر ثاپت ہوئے ۔1965ء میں ایک مرتبہ پھر ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مابین صدارتی انتخابات میں بدترین دھاندلی اور ریاستی مشینری کے استعمال سے ایوب خان کو جتوایا گیا۔1970 ء کے انتخابات سانحہ مشرقی پاکستان پر منتج ہوئے۔1977ءکے انتخابی نتائج بھی تسلیم نہ کیے گئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نئی اشرافیہ کی وجہ پیدائش ثابت ہوئے۔ 1988ء ، 1990ء، 1993ء اور 1997ء کے انتخابت اسی ناکام تجربہ کا حصہ رہے۔2002ءمیں ایک مرتبہ پھر جمہوری نظام کو وینٹیلیٹر پر ڈالا گیا اور مصنوعی آکسیجن سے زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔2008ءمیں بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹا کر انتخابات کروائے گئے۔ 2013ء کےانتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے۔2018ء میں آر ٹی ایس بٹھانے کے الزامات لگائے گئے اور اب 8فروری 2024ء کیلئےسجائے گئے سٹیج سے پردہ اٹھنے کا انتظار ہے۔8فروری 2024ء کے انتخابات کیلئے لیول پلینگ فیلڈ کا تصور تو ختم ہو ہی گیا ہے اسی لیے ہم کئی سالوں سے معیشیت کے لحاظ سے اپنے پاؤں میں کھڑے نہیں ہو رہے

ملک میں سیاسی عدم استحکام براہ راست معیشت پر اثر ڈال رہا ہے اور مارکیٹ میں الجھن پھیلا رہا ہے محض الیکشن کروانے سے تو معاملات حل نہیں ہوں گے۔ جب تک صاف شفاف انتخابات نہیں ہوتے سیاسی استحکام نہیں آئے گا آئینی اور قانونی طور پر الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صاف اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں اور اس کے لیے سارے انتظامات کرے تاکہ ملک کی ترقّی و استحکام میں انتخابی عمل ایک کلیدی کردار ثابت ہو۔۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں-