پیارے قارئین !گلشن زندگی میں بہار کا پہلو بہت اہم تصور ہوتا ہے اور یہ تصور بہتر تعلیم وتربیت سے حسن معنی کا روپ اختیار کرتا ہے۔مسرتوں کے پھول تبھی کھلتے ہیں جب اطمینان کی کیفیت پیدا ہو۔معاشرہ چونکہ افراد سے بنتا ہے اور افراد مل جل کر رہتے ہیں۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنا اور عزت و آبرو کا احترام کرنا بہترین سماجی زندگی کے تصور کو پختہ کرتا ہے۔اس ضمن میں جو عرض کرنا مقصود ہے وہ یہی ہے کہ اس وقت جدت پسندی کے رجحان میں انسانیت غرق ہے۔جن آداب زندگی میں ہماری کامیابی کا راز پوشیدہ ہے ان پر عمل کرنے کی بجاۓ عصر نو کی بھول بھلیوں میں کامیابی کی امید لگانا فضول ہے۔بقول شاعر:۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
جب تک اسلام کی ضیا پاشیوں سے لطف اندوزی نہیں ہوتی اس وقت تک چین اور اطمینان کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔قرآن مجید ایک ایسی جامع کتاب ہے جس میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے رب کریم کی طرف سے ہدایات موجود ہیں۔اس وقت المیہ یہی ہے کہ جدید ایجادات نے انسان کی توجہ ایسے مواد پر مرکوز کر دی ہے جس میں کامیابی ڈوبتے سورج کی طرح محسوس ہوتی ہے۔اس میں یہ حقیقت بھی کارفرما ہے کہ انسانیت کے تقاضے جو معلم انسانیت نے احکام ربانی کی صورت میں پیش فرماۓ ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔بقول اقبالؒ:۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر کیا بھی تونے
وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو اک ٹوٹا ہوا تارا
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک زندگی اسلامی اصولوں اور آداب کے مطابق بسر نہیں ہوتی کامیابی ناممکنات میں شمار ہوتی ہے۔نوجوان نسل کی مکمل رہنمائی کی ضرورت ہے۔تاکہ عملی زندگی میں کامیابی حاصل کر سکیں۔زندگی کا تصور ان کے ذہن نشین کرنا ضروری ہے بصورت دیگر سماجی زندگی جدت پسندی کے خول میں لپٹی تباہی وبربادی کی تصویر بن جاۓ گی۔والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریوں میں یہ بات سرفہرست شمار ہوتی ہے کہ تعلیم وتربیت ایسے خطوط پر کریں جن سے حیات انسانی میں ایک پربہار موسم پیدا ہو۔انسانیت کا احترام اور اخلاقیات کا بھرم باقی رہے۔معاشرتی زندگی کا شیرازہ اس وقت بکھر جاتا ہے جب نفرتوں کی دیواریں بلند ہوں۔نفرتوں کے دبیز پردوں میں پلنے والی زندگی میں پھول کبھی نہیں کھلتے بلکہ خار ہی پیدا ہوتے ہیں جو سماج کے پیرہن میں سوراخ کرتے ہیں۔دشمنی کی بھینٹ چڑھتی انسانیت کی مناسب رہنمائی کے پیمانے تو سنہری اصول ہوتے ہیں۔جن پر عمل پیراء ہو کر کامیابی کی نوید سنی جا سکتی ہے۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ بقول شاعر:۔
ذرا نم ہو تو مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
بہتر تعلیم وتربیت سے ہی سماجی زندگی کے روپ میں خوبصورتی پیدا کی جاسکتی ہے۔اور اس گلشن حیات میں رونق اور بہار پیدا کی جا سکتی ہے۔ضرورت فقط مثبت طرز عمل اور کردار کی ہے۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-