73 سالہ تاریخ شرمندہ ہے کہ اس ملک پر حکمرانی کرنے والوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ عوام کے دکھوں کو محسوس کرنے، سمجھنے اور ان کا مداوا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ان کے بنیادی مسائل کو اہمیت دی اور نہ ہی ان کے گھمبیر مسائل کو حکومتی ترجیحات کا حصہ بنایا۔تھانہ اور پٹوارخانہ” عوام کی زندگیوں کو اذیت ناک بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دونوں محکمے تنگ دست اور غریب لوگوں کے لئے قہر اور با اختیار طاقتور اور حکمران طبقے کے لئے آسودگی اور طاقت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جہاں انصاف اور قانون کی خرید و فروخت خریدار کی حیثیت اور مرتبے کے مطابق ہوتی ہے۔یہ نظام تنزلی کے عروج پر ہے اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اس نظام کو کمپیوٹرائز کیے جانے کے باوجود پٹواری نظام بحال کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا گیاہے۔ کیوں کہ یہ نظام سیاست دانوں اور اور بیوروکریسی کے علاوہ ہر اس طاقتور طبقے کے لیے موافق ہے جو کمزور اور بے آواز لوگوں کو طاقت کے زور پر دبانے اور ان کے حقوق غصب کرنے کا عقیدہ رکھتا ہے۔
قیمتی رقبوں کی شاملات اپنی ملکیت بنانے اور ان کی زمینوں سے ملحقہ غریبوں کی چھوٹی چھوٹی زمینوں کو جعلی رجسٹریوں کے ذریعے قبضے کرنے والوں کا پہلا اور آخری آسرا ہی پٹوار خانہ ہوتا ہے جن کی حرس اور لالچ کی کوئی حد اور رشوت کا کوئی حساب نہیں ہوتا کیونکہ انہیں حکمران طبقوں، وڈیروں، زمینداروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی امان حاصل ہوتی ہے۔پٹواری اور پٹوار خانے کے حکام جو غیر قانونی کام کرتے ہیں انہیں ان طاقتور حاکموں کی پشت پناہی اور تعاون حاصل ہوتا ہے اور پٹوار خانے زمینوں کے انتقال کرنے کے لئے جو رشوت لیتے ہیں وہ معاشرے میں جائز اور قانونی کرپشن تصور کی جاتی ہے۔ اور ان کا یہ کاروبار سرعام اور بے خوف و خطر ہوتا ہے۔اگرچہ بے سہارا لوگوں کو زمینوں پر جعلی کاغذات کے ذریعے قبضوں کی آوازیں تو ملک کے کونے کونے سے اٹھتی رہتی ہیں لیکن پنجاب کے دور افتادہ اور مضافاتی علاقوں خصوصاً جنوبی پنجاب میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ پٹواریوں تحصیلداروں اور محکمہ مال کے سابق ملازمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جعلی پٹوار خانے قائم کر رکھے ہیں جو پرانی تاریخوں کے اسٹامپ پیپرز کے ذریعے بے سہارا غریب لوگوں کی وراثتی جائیدادیں اور زرعی رقبے جعلی رجسٹریوں کے ذریعے بھاری معاوضوں کے عوض قبضہ مافیا کو بھاری رشتوں کے ذریعے انتقال کر دیتے ہیں۔پنجاب میں زمین کی منتقلی کا جائز اور قانونی طریقہ تو یہ ہے کہ زمین فروخت کرنے اور خریدنے والے دو گواہوں کے ہمراہ اراضی ریکارڈ سنٹر جائیں گے اور انتقال درج کروا کر سرکاری واجبات کی ادائیگی کریں گے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈ ریکارڈ کے روبرو بیان ریکارڈ کرائیں گے اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریکارڈ ان کے بائیو میٹرک انگوٹھے کے نشان اور تصاویر لے گا۔ اور انتقال کا فیصلہ کرے اور زمین خرید کنندہ کے نام منتقل ہو جائے گی اور اگر موضع (گاو?ں) کمپیوٹرائزڈ نہ ہو تو یہ عمل پٹواری اور تحصیلدار کریں گے لیکن بتایا جاتا ہے کہ عملی طور پر ان علاقوں میں پٹواری اور تحصیلدار ہی مختلف حیلے بہانوں سے زمینوں کا مینﺅل انتقال کرتے ہیں۔ جبکہ کمپیوٹرائزیش کے بعد ریکارڈ کی ٹمپرنگ یا ردوبدل تقریبا ختم ہو چکی تھی جس کا ثبوت عدالتوں میں دیوانی مقدمات میں ہونے والی واضع کمی ہے۔
البتہ اپنے کام کے ماہر پٹواری جعل سازی کے ذریعے کسی زمین کے مالک کو ذہنی مریض ظاہر کرکے اس کا رقبہ کسی دوسرے کے نام منتقل کر دیتے ہیں۔ اس جرم میں پٹواری کے منشی سے تحصیلدار تک شامل ہو سکتے ہیں۔ اس سارے کاروبار میں ملوث اندرونی ملازمین کا کہنا ہے کہ ماسوائے چند کیسز کے ڈپٹی کمشنر براہ راست اس دھندے میں ملوث نہیں ہوتے البتہ ان کی سرپرستی پٹواری اور محکمہ مال کو حاصل ہوتی ہے۔ اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ کہ ڈپٹی کمشنر صاحبان کے کچن اور گھر کے دوسرے اخراجات کے علاوہ ان کے پاس آنے جانے والوں کی خاطر مدارات اور کھانا پینا پٹواری کے ذمہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر پٹوار خانے سے لی جانے والی رشوت میں براہ راست حصہ دار ہوں لیکن اس سارے کھیل میں ملوث ہونے کے دوسرے طریقے بھی اختیار کئے جا سکتے ہیں۔
اگرچہ زمینوں کی جعلی ٹرانسفروں کے مرکزی کردار پٹواری اور تحصیلدار ہی ہوتے ہیں اور یہی اعلی حکام کو ایسے کاموں کے لئے جواب دہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے براہ راست دستخطوں سے ہی زمین کا انتقال ہوتا ہے۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ محکمہ مال کے اعلیٰ حکام اس کرپشن سے بے خبر یا لاعلم ہوں۔ کیونکہ ان کاموں سے اگر پٹواری کے منشی سے اوپر تک تمام اہلکار ملوث ہوں گے تو اعلی حکام کے لاعلم ہونے کا منطق سمجھ سے باہر ہے۔ان حالات میں پٹوار خانوں کے مظالم کا شکار ہونے والوں کے لیے انصاف کے لئے دادرسی کے صرف دو دروازے ہیں ڈپٹی کمشنر یا اینٹی کرپشن۔ ڈپٹی کمشنر کے کردار سے مظلوم مطمئن نہیں اور اینٹی کرپشن کا ادارہ خود کرپشن سے پاک نہیں۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-