آج اداسی کیوں چھائی

سات جنوری اتوار کے دن کو میں نے پیدل گھومنے کا منصوبہ بنالیا۔ نیت بنی کہ صبح سات سے نو بجے اپنے گاؤں کی سیر کروں گا۔ جیسے ہی مقررہ دن آیا، خراماں خراماں قدموں سے حسب منصوبہ چل دیا۔

جوں ہی گاؤں سے باہر کھلے میدانوں کی طرف نکلنے لگا؛ سرد ہواؤں کے تھپیڑوں اور حد نگاہ تک دھند نے مشکلات میں اضافہ کردیا۔ شدید دھند میں دور دور تک کچھ نہ دکھائی دے رہا تھا۔

آج فضاؤں میں عجب اداسی چھا رہی تھی۔ کئی درخت خزاں رسید ہوکر بے پردہ بلکہ برہنہ ہوچکے تھے۔ کھیت کھلیان دھند کے پانی سے لبریز ہوکر اپنی اصل رنگت بدلنے لگے۔ گھاس پر پڑی اوس پہ پاؤں رکھتے ہی جمنے لگتے۔ خاموشی اس قدر تھی کہ پرندوں کی آواز سننے کےلیے کان ترستے۔ بیچ راستے میں چلتے ہوئے اچانک موٹر سائیکل سوار مجھ پہ آ چڑھنے والا ہی تھا کہ موبائل کی ٹارچ نے کام دکھایا۔ میں پل بھر میں ایک سمت سرک کر بال بال بچا۔ اگرچہ موٹر سائیکل سوار کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی اور برابر وہ ساٹھ کی رفتار سے بھاگتا چلا گیا۔ میرے قدموں کی رفتار میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آنے لگی۔ اب میں نہر کے ایک کونے پہ چلنے لگا۔ یہاں درختوں کے جھنڈ سے پرندوں کے پھڑپھڑانے کی آوازیں بلند ہونے لگی۔

نہر کے کونے کے ساتھ چلتے چلتے میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تو پانی بالکل زمین کی تہہ کے ساتھ جما پڑا تھا۔ یہ نہر جو کبھی چوبیس گھنٹے ٹھنڈے پانی کی آوازوں سے گونجتی تھی آج ٹھنڈ میں خود ہی مردہ جسم سنسان پڑی تھی۔ رفتہ رفتہ میں آگے بڑھتا گیا۔ اب میں نہر سے دوسری آبادی کی سمت بڑھا۔ یہاں پہنچتے ہی جانوروں کی آوازیں آنے لگیں۔ یورپی ممالک جانے کے بعد غورغشتی کے لوگ صبح دیر سے جاگنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ آج معلوم ہوا گرد و نواح کے لوگوں نے بھی اس بری بدعت کو خوب زندہ کیا ہوا ہے۔ ایسی باتوں کو ہم اپنی انداز میں خربوزہ؛ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑنا کہتے ہیں۔

واپس اداس قدموں سے چل پڑا۔ اس سیر کی خاص بات یہ تھی کہ بارشیں نہ ہونے کے باعث فضا، ہوا اور زمیں و زماں سبھی مغموم دکھائی دے رہے تھے۔
آہ! ایک ہم ہیں، جو گھروں، مسجدوں اور کھیتوں میں بیش بہا پانی کا ہر وقت ضیاع کررہے ہوتے ہیں۔ ایک یہ دنیا بھی ہے جو ایک ایک بوند باران کےلیے ترستی ہے۔ اس لیے تو آج ہر شے پہ مرگ امید کے آثار نمودار ہورہے تھے۔ دوران سیر مجھ پہ پہلی بار غم و غصے کی ملی جلی کیفیت طاری رہی اور سرور مجھ سے کوسوں دور رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے ہمارے گناہوں اور ایک دوسرے پہ ظلم زیادتیوں کے سبب آج کائنات کا ذرہ ذرہ ہم پہ ماتم کررہا ہے کہ گناہ و ظلم تو تم انسان کرتے ہو، سزائیں ہم بھگت رہے ہیں۔ نافرمانیاں تم کرتے ہو، سہتے ہم ہیں۔ اللہ ہمارے حالات پہ رحم کرے اور ہمیں گناہوں و زیادتی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-