پیارے قارئین!بچوں کے بستوں کا بوجھ اور ان کی بساط کے حوالے سے جب بھی غور کرتا ہوں تو شاعر معروف ,صداۓ سخن,شاعر دلپذیر اورترجمان محترم نواب ناظم صاحب کی ایک غزل کا پہلا شعر کتاب محبت لوٹ آۓ گی جو موصوف کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔اس کتاب کے صفحہ نمبر 61 پر بہت خوبصورتی سے تعلیم کے حوالے سے شعر میں بہترین لہجے اور خوبصورتی سے عکاسی کی ہے۔اسی شعر کی جامعیت ہی کے تناظر میں کالم لکھنا چاہتا ہوں۔موصوف نے بہت خوبصورت انداز سے لکھا ہے۔بقول نواب ناظم میو
بچپن میں میری ماں نے پڑھایا تو بہت تھا
بستے کا بڑا بوجھ اٹھایا تو بہت تھا
اس شعر کے مفہوم کے مطابق ماں کی مامتا کی حقیقی معنوں میں شاعر موصوف جو سمندر شوق کے موتی ہیں۔خون جگر سے ہیرے تراشتے ہیں۔انسانیت سے پیار کرتے اور با مقصد کلام پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔گویا انسان کو بیتے ماضی کی یاد دلا دی ہے۔بچہ جب عمر میں کم سن ہوتا ہے وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو ماں ہی ایسی ہستی ہوتی ہے جو بستہ اٹھاتی اور بچہ کو سکول کی دہلیز تک پہنچاتی ہے۔ماں کی عظمت کا احساس اس شعر کی خوبصورتی سے اجاگر ہوتا ہے۔وہ زمانہ کم سنی کا بھی کتنا عجیب ہوتا ہے جب معصومیت کے عالم میں بوجھ اٹھانا مشکل ہوتا ہے تو ماں اپنے جگر گوشے کا بوجھ اٹھاتی ہے۔اپنی سب خوشیاں قربان کرتی ہے۔ماں کا مرتبہ کتنا بلند اور عظیم کہ”جنت ماں کے قدموں تلے ہے“ماں کی قلبی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت ہو۔ماضی کا تذکرہ کتنا دلچسپ ہوتا ہے۔انسان کو ماضی گزرا ہوا وقت کا ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے۔ماں باپ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہیں۔
کوئی لالچ نہیں بلکہ جگر کا ٹکڑا سمجھ کر پالتے ہیں۔عصر نو کا منظرنامہ تو اور بھی توجہ کا مستحق ہے۔معصوم بچوں پر اس قدر کتابوں اور کاپیوں اور دیگر ضروری اشیاء بستہ میں ہوتی ہیں تو بوجھ معصوم بچوں سے اٹھایا نہیں جا سکتا۔لیکن ماں کی محبت اور مامتا دیکھیے کہ ہر قسم کی مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوۓ اولاد کی بہتر تعلیم وتربیت کی خاطر مصائب بخوشی برداشت کر لیتی ہے۔اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مشکل ترین مالی حالات کے باوجود ہر ماں کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کا لخت جگر زیور تعلیم سے آراستہ ہو۔سماج اور معاشرہ میں عزت سے زندگی بسر کر پاۓ۔دوسرے لفظوں میں ماں اپنی تمام تر زندگی اولاد کی بہتری کے لیے وقف کر دیتی ہے۔
محترم نواب ناظم میو ایسی ہستی ہیں جن کے قلم سے انسانیت کی قدر اور احترام کے لیے پھول کھلے اور غزلیات کے ہر شعر سے ایک عنوان کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔گویا موصوف کی قلمی خدمات اس قدر بے مثال ہیں جن سے رہنمائی کا سامان ملتا ہے۔دلوں میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے۔امید کی جا سکتی ہے موصوف محبتوں کے سفر میں یہ احساس اجاگر کرتے رہیں گے”محبت لوٹ آۓ گی“
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-