دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو شہید آج بھی عوام کی دلوں کی دھڑکن ہے

محترمہ بینظیر بھٹو ستاٸیس دسمبر 2007ء کی ایک یک بختہ شام میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے تاریخی خطاب کے بعد اپنی رہاٸش گاہ اسلام آباد کے زرداری ہاوس روانہ ہونے کے لیے اپنی گاڑی میں سوار ہوٸیں گاڑی جیسے ہی لیاقت روڈ پر پہنچی تو کچھ افراد نے گاڑی کے عین سامنے آ کر وزیراعظم بینظیر اور زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے لگانے شروع کیے جس پر محترمہ بینظیر بھٹو اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکیں اور نعرے لگانے والے افراد کی حوصلہ افزاٸ کے لیے اپنی گاڑی کے sun roof سے باہر کھڑی ہوکر ان کی جانب ہاتھ ہلانے لگیں

اسی اثناء میں پہلے چند فاٸر اور اس کے ساتھ ہی ایک زور دار دھماکے کی گھن گرج سے لیاقت روڈ کی فضاء گونج اٹھی دھوٸیں کے بادل چھٹے تو لیاقت روڈ پر جانثاناران بینظیر بھٹو کے کٹے پھٹے لاشے اور زخمی پڑے تڑپ رہے تھے اس المناک واقعہ کے کچھ دیر بعد راولپنڈی جنرل ہسپتال کے سینٸر ڈاکٹر نے محترمہ بینظیر بھٹو کی موت کی بھی تصدیق کر دی اور یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیل چکی تھی ہر طرف ایک بے یقینی مایوسی پحیرت اور دہشت جیسا ماحول بن چکا تھا

آصف علی زرداری اپنے بچوں بلاول، بختاور اور آصفہ کے ہمراہ دوبٸ سے لاڑکانہ آنے کے لیے جہاز میں سوار ہو چکے تھے اور دنیا بھر کے سیاسی رہنماوں نے اپنے اپنے تعزیتی بیانات میں محترمہ بینظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنا شروع کر رکھا تھا یوں21جون 1957ء کو پیدا ہونے والی بینظیر بھٹو 27دسمبر 2007ء میں عوام کی خوشحالی اور پاکستان کی سالمیت و بقا کے عزم کے ساتھ اس دنیا سے انتقال فرما گٸیں
انا للہ وانا الیہ راجعون

محترمہ بینظیر بھٹو کے راولپنڈی میں سفاکانہ قتل کے بعد جہاں ہر طرف ملک میں افراتفری کا سما تھا وہیں سندھ کے تمام قوم پرست رہنماوں نے سندھ کو پاکستان سے الگ کرنے کا مطالبہ کر دیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس انتہاٸ نازک وقت میں آصف علی زرداری نے اپنے بچوں کے ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو کی قبر پر کھڑے ہو پاکستان کھپے کا تاریخی نعرہ لگا کر ملک کو عدم استحکام کا شکار ہونے سے محفوظ رکھنے میں اہم اور تاریخی کردار ادا کیا

محترمہ بینظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ اپنے ہوش سنبھالنے سے لیکر اپنی آخری سانس تک عوام میں رہنا پسند کیا عوام کی بات کی عوام کے حقوق کی آواز بلند کی پاکستان کی سالمیت بقاء و حفاظت کے ساتھ ملکی ترقی و خوشحالی کی کوششیں کیں وہ دنیا میں جہاں بھی گٸیں انھوں نے پاکستان اور پاکستانی عوام کے مساٸل کے حل کو مقدم رکھا

محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان واپس آنے اور انتخابی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت پاکستان میں دہشت گردی نقطہ عروج پر تھی حکومتی سرکاری اعلیٰ سول و فوجی قیادت کو دہشت گردوں نے دھمکی آمیز پیغامات بھیج رکھے تھے جنرل مشرف کی حکومت گو کہ ان ہنگامی حالات کی روک تھام میں مصروف تھی لیکن تاحال انھیں اس میں کوٸ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوٸ تھی خود محترمہ بنظیر بھٹو کے کراچی پشاور کے عوامی رابطہ جلسوں کے قریب سے بھی بم ڈسپوزایبل سکواڈ نے کچھ بم ناکارہ بناۓ تھے کارساز میں پیپلز پارٹی سینکڑوں کارکنان کے لاشے اٹھا چکی تھی سینکڑوں زخمی تھے پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکنان شدید غم و اضطراب میں مبتلا تھے لیکن ان تمام ہنگامی حالات اور دہشت زدہ ماحول کے ہوتے ہوۓ بھی محترمہ بینظیر بھٹو دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کےسامنے کسی سیسہ پلاٸ ہوٸ دیوار کی مانند ڈٹ کر کھڑی تھیں اور ان حالات میں پاکستان مخالف طاقتیں جب ملک کو سیاسی معاشی عدم استحکام کا شکار کر کے دنیا بھر میں تنہا کرنا چاہتی تھیں ان بگڑے ہوۓ حالات میں محترمہ بینظیر بھٹو نے راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ کے وسیع و عریض میدان میں آۓ ہوۓ ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوۓ ملک دشمن عناصر کو ایک واضع پیغام دیتے ہوۓ پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا تھا کہ یہ دھرتی ہمیں پکار رہی ہے ہمارا ملک خطرے میں ہے میں اس ملک کو بچاونگی آپ اس ملک کو بچاٸیں گے ہم سوات سے پاکستان کا پرچم نہیں اترنے دینگے ہم دہشت گردوں کے سامنے ہرگز نہیں جکھیں گے ایسے حالات میں جب تمام قومی قیادت سول و عسکری ذمہ داران دہشت گردوں سے لڑتے لڑتے تھک چکے تھے اور انھیں کوٸ راہ امن دکھاٸ نہیں دیتی تھی اسوقت میں محترمہ بینظیر بھٹو نے ملکی استحکام اور دہشت گردوں سے تحفظ کا نعرہ مستانہ لگایا تھا محترمہ بینظیر بھٹو کی اس للکار کے بعد جہاں ملکی قومی اداروں کو تقویت ملی وہیں دہشت گردی کی کمر توڑنے میں بھی مدد ملی وہ خود تو دنیا سے رخصت ہوٸیں لیکن ان کے بعد کسی کو پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوٸ

محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی لیاقت باغ کی تقریر میں اسٹیج پر موجود پارٹی رہنماوں سے ایک حلف بھی لیا تھا کہ جب آپ الیکشن جیت جاو گے تو آپ اس عوام کی خدمت کرو گے انھیں روزگار دو گے اپنے خاندان اور قباٸل کے افراد کو عوام پر فوقیت نہیں دو گے بلکہ کارکنان اور عوام کے مساٸل حل کرو گے بعد ازاں پیپلز پارٹی کے کارکنان کے کتنے مساٸل حل ہوۓ یہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں یا پھر وہ افراد جنھوں نے اسٹیج پہ کھڑے رہتے ہوۓ محترمہ بینظیر بھٹو کو حلف دیا تھا

محترمہ بینظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوٸیں لیکن دونوں مرتبہ انکی حکومتوں کو غیر مستحکم کرتے ہوۓ اپنی آٸینی و جموری مدت مکمل کیے بغیر ہی صدر پاکستان نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوۓ ختم کر دیا محترمہ بینظیر بھٹو نے انتہاٸ قلیل مدتی حکومتوں میں پاکستان کی سالمیت استحکام اور مضبوط دفاع کے ساتھ ساتھ عوامی خوشحالی کے گرانقدر کارنامے سرانجام دیۓ جس کے ثمرات بعد میں آنے والی حکومتوں تک منتقل ہوتے رہے

محترمہ بینظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی صرف سیاسی جانشین ہی ثابت نہیں ہوٸیں تھیں بلکہ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اس قول کو بھی عملی جامہ پہنایا تھا جس میں قاٸد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کی آخری ملاقات میں کہا تھا کہ بینظیر میں آج پاکستان کے عوام کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دیتا ہوں بس عوام کی ترقی خوشحالی کے لیے جو بھی تم کر سکو وہ کرنا ملکی و قومی خدمات کے عوض پاکستان کے عوام نے انھیں قاٸد عوام اور دختر مشرق کے لازوال خطاب بھی دیۓ انھیں عالم اسلام کی پہلی منتخب وزیراعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل رہا

محترمہ بینظیر بھٹو نے ملک کی سلامتی و خوشحالی اور عوام کی محبتوں کا جو پرچم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی گھاٹ سے اٹھایا تھا آج اسی پرچم کو انکا اکلوتا بیٹا اور ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری سربلند رکھتے ہوۓ عوام کے درمیان آ چکا ہے اور پاکستان کے عوام بھی محترمہ بینظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے لیے اپنے پیار و محبت سے لبریز جذبات کا والہانہ اظہار کر رہے ہیں

پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت نسل در نسل بلاول بھٹو زرداری تک منتقل ہو چکی ہے اور بلاول بھی جیسے یہ عزم کر چکے کہ انھوں نے پاکستان اور پاکستانی عوام کی آسودگی و خوشحالی کے لیے کسی سے کسی بھی قسم کا کوٸ سمجھوتہ ہرگز نہیں کرنا کیونکہ بلاول بھٹو بھی یقیناً اپنی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی اس بات کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور عوام کی خدمت میں ہی حقیقی کامیابی و کامرانی پوشیدہ ہے بلاول کی عوام سے محبت اور قربت کو دیکھتے ہوۓ اب جیالے یہ نعرہ لگاتے دکھاٸ دیتے ہیں کہ

قومی وحدت کی تصویر
بلاول بھٹو زرداری بینظیر

دعا ہے کہ اللہ کریم محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کے والدین و اعزاء اقارب اور جو جانثاران بینظیر اس دنیا سے رخصت فرما چکے ان سب کی مغفرت فرماۓ آمین محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت سے پاکستان ایک دور اندیش مدبر باصلاحیت باشعور اور جرات مند عوامی جمہوری سیاسی قیادت سے محروم ہو گیا

میں انقلاب پسندوں کی اک قبیل سے ہوں
جو حق پہ ڈٹ گیا اس لشکر قلیل سے ہوں
میں یونہی نہیں دست و گریباں زمانے سے
میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-