انتخابی دنگل اور عوام

اب عام انتخابات میں دو ماہ کا وقت بھی نہیں رہا۔اور پاکستان کی سیاست کے بارے صرف یہی تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ ”بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“……اس کا بہترین مظاہرہ الیکشن سے قبل انتخابی مہم میں نظر آتا ہے

76برسوں میں اس سیاست کے نام پر عوام کو اتنی مرتبہ بے وقوف بنایا گیا ہے کہ اس کی کسی دوسرے شعبے میں مثال نہیں ملتی۔
کون دوست ہے اور کون دشمن، پتہ ہی نہیں چلتا۔ ایک دوست کے کپڑے اتارنے والے، ایک دوسرے پر گندگی، غلاظت اچھالنے والے کس قدر آسانی سے سب کچھ بھول کر ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں

پاکستان میں سیاسی گول دائرے میں سفر کرتی ہے۔ گھما پھرا کے اُسے دوبارہ اسی مقام پر لاکھڑاکیا جاتا ہے، جہاں سے گزری ہوتی ہے، آج کی صورتِ حال کو دیکھیں تو سب کچھ واقعات کا ایکشن ری پلے نظر آئے گا، پرانے مقدمات ختم ہو رہے ہیں نئے مقدمات بن رہے ہیں۔ چہرے بدل گئے ہیں، واقعات وہی ہیں۔ جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، سیاسی جماعتیں ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے نت نئے بیانیے سامنے لارہی ہیں۔کہ ہم نے ’فلاں سال سے فلاں سال، تک عوام کی بھلائی اور ترقی کے لیے فلاں فلاں اقدامات  کیے اور آج وعدہ کرتے ہیں کہ عوام ہمیں دوبارہ ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے ووٹ دیں تو ہم پھر دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے جبکہ یہ سیاست دان اس بات سے عاری ہیں کہ عوام جیسے انہیں نہیں جانتے کہ ان سب کو 8 فروری کے بعد آسمان نگل جائے گا یا زمین ان کے دعووں میں موجود الفاظ ’تھا‘، اور’کریں گے‘ میں فاصلہ بہت لمبا ہے۔ ان دعووں کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ باتیں بے مقصد اور لاحاصل ہیں کہ عوام سے ووٹ لے کر، ہم یہ کریں گے۔کیونکہ عوام ہر جماعت کی حکومت کو آزما چکے ہیں۔مزے کی بات تو یہ ہے کہ اب دوسرا بیانیہ بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام تک جانے کی بجائے شخصیات کے گھروں میں جا کر اپنے سابق ادوار کے سیاسی مخالفین سے دوبارہ سودے بازی کے لیے حاضری دے رہی ہیں، جن سے ان کی دہائیوں سے قطع تعلقی رہی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف، چودھری شجاعت حسین کے پاس وفد لے کر گئے۔ پھروہ پارٹیاں جن کے ساتھ ان کے  تعلقات نہیں تھے، بلکہ ان پر دہشت گردی کے الزامات بھی لگا چکے تھے، یعنی مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم۔ دونوں ایک دوسرے کے دفاتر جا کر ہمنوابننے کا اعلان کرتے ہیں،ساتھ چلنے اور وفا نبھانے کے اعلانات کرتے ہیں۔ دوسری طرف ملک کی ایک بڑی نظریاتی جماعت پیپلز پارٹی عوام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ’ورکرز کنونشن‘ کے ذریعے اپنی پالیسی کو عوام تک پہنچانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔

ان سے گزارش صرف اتنی ہے کہ وہ سابقہ ادوار کے وعدے و عہد اور ان پر عمل کرنے کا تذکرہ کم کرکے عوام سے وہ باتیں کریں، جن میں کامیابی ہو سکتی ہے، نہ کہ سابقہ ادوار کی کامیابیوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر کریڈٹ لیتے ہوئے ووٹ مانگیں۔یہ تو طے ہے کہ انتخابات کے لئے کسی جماعت کے پاس بھی کوئی نیا نعرہ نہیں، سب پرانے چورن پر گزارا کریں گی۔ اس بار الیکشن عجیب ماحول میں ہو رہے ہیں شیڈول آنے کے باوجود جوش و جذبے کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتیں قدم پھونک پھونک کر اٹھا رہی ہیں۔ نوازشریف ایک جلسہ کرنے کے بعد باہر نہیں نکلتے تحریک انصاف کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں مل رہی  جبکہ پیپلزپارٹی جوڑ توڑ کے عمل سے گزر رہی ہے، کسی سیاسی جماعت کا منشور ابھی تک سامنے نہیں آیا، حالانکہ ایک زمانہ تھا الیکشن سے پہلے ہر سیاسی جماعت اپنا منشور پیش کرتی تھی، منشور کے بغیر عوام کے پاس ووٹ مانگنے کے لئے جانا ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی کے پاس بغیر ایجنڈے کے جا رہے ہوں۔ بس خالی خولی دعوے ہیں، جن کی بنیاد پر عوام کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھائے جا رہے ہیں سیاسی جماعتیں ابھی تک الیکشن کمیشن کو اس بات پر بھی آمادہ نہیں کر سکیں کہ وہ سب جماعتوں کو لیول پلئنگ فیلڈ مہیا کرے۔ جبکہ زمینی حقائق کے مطابق دیکھا جائے تو ملک گوڈے گوڈے مسائل میں دھنسا ہوا ہے ان مسائل سے نکالنے کے لئے کسی کے پاس کوئی پلان ہے، کوئی مہارت، کوئی لیاقت، کوئی ایجنڈا موجود ہے۔ پٹرول، بجلی، آٹا، گھی، دالیں ا ور اشیائے خورد و نوش عوام کی دسترس سے نکل گئیں۔ وہ اس لئے اس ملک کی سیاست غریبوں کی بھوک کے گرد ناچتی ہے۔

اس وقت بھی دیکھیں، سیاست کا یہی چلن ہے بھوک، ننگ اور غربت ہی سیاست کا موضوع ہے۔ تمام بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہی ہیں۔ آج ملک جس جگہ کھڑا ہے، یہاں تک لانے میں سبھی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک دو برس کی کہانی تو ہے نہیں، پون صدی کا قصہ ہے۔ کوئی بتائے کہ اس ملک کی سیاست سے اگر بدحالی اور غربت کا موضوع نکال دیا جائے تو پیچھے کیا بچتا ہے۔۔۔؟سو اسی پر کھیلو، خوب کھیلو  نسل در نسل…….

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-