سقوط ڈھاکہ کو 52 برس بیت گئے، نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر اس کے زخم آج بھی تازہ ہیں جب پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے گئے یہ تاریخ میں ایک دردناک اور نہ بھولنے والا سانحہ ہے 16 دسمبر 1971 تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب پاکستان کو دشمنوں کی سازشوں نے دو لخت کر دیا تجزیہ کاروں کے مطابق یہ سانحہ غیروں کی سازشوں اپنوں کی حق تلفی اور بڑوں کی کوتاہی سے وقوع پذیر ہوا۔ سیاستدانوں کی بےاعتنائیوں اور مغربی پاکستان کے روکھے رویوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں احساس محرومی میں بدل گئیں اور اغیار نے اس کو ہوا دے کر نفرت کے بیج بوئے جو 1970 کے اوائل ہی سے تناور درخت بن کر نفرت و دشمنی کے پھل دینے لگے تھے،تاہم آنے والے وقت نے سب سوچوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور عداوت کی ایسی اندھی ہوا چلی کہ اپنوں کی تمیز ختم ہو گئی وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا 70/71کے انتخابات کے نتائج میں برتری کے باوجود جب بنگالیوں کو اقتدار نہیں ملا تو اُسی بنیاد پر علیٰحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی ۔بھارت نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بنگالیوں کی امداد کے بہانے پاکستان پر جنگ مسلّط کر دی جس کا انجام سقوطِ ڈھاکا کے شرمناک المیے پر ہوا۔جس کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان اور حال کے بنگلہ دیش میں پاکستان کے نام لیواؤں پر جو ظلم کیا گیا وہ خون اور آنسوؤں کی ایک ایسی تاریخ ہے جس کو بیان کرنے اور پڑھنے کے لئے ایک حوصلہ چاہئے۔ یہ ناقابلِ بیان سچائیاں ہیں اور صد افسوس کہ یہ زیادتیاں آج تک جاری ہیں اور وہاں آج بھی پاکستان کا نام لینے والوں کو موت دی جا رہی ہے۔
یہ منظر 16 دسمبر1971 کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان کا تھا۔ یہ وہی ڈھاکہ ہے جہاں جمع ہو کر مسلم قیادت نے 1906 میں مسلم لیگ قائم کی تھی۔اسی مسلم لیگ نے آگے چل کر دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ہندؤں اورانگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے علیحدہ وطن حاصل کیا تھا۔مگر آزادی کے صرف 24 سال بعد ہی اس ملک کے عین عالم شباب میں ڈھاکہ کو یہ منظر بھی دیکھنا پڑ رہا تھا کہ جس ہندو سے آزادی کی خاطر لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر یہ وطن حاصل کیا تھاآج اسی عظیم وطن کے ٹکڑے کیے جارہے تھے
آخر وہ کون سی وجوہات تھیں کہ آزادی کے صرف 24 سال بعد ہی اس ملک کے حصے کرنے کی نوبت پیش آگئی؟ وہ کون سی مجبوریاں تھیں کہ وہ فوج جس نے صرف چند سال قبل ہی اپنے اس ازلی دشمن بھارت کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا تھا، آج وہی فوج اس دشمن کے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی۔ وہ کون لوگ تھے جو محمد علی جناح کی رحلت کے بعد ہی ملک کے دونوں حصوں کے مابین افتراق و اختلاف کی باتیں کرنے لگے تھے۔
ڈاکٹرصفدر محمود لکھتے ہیں کہ بنگالی سیاستدان دونوں صوبوں کے درمیان موجود ثقافتی اور جغرافیائی بْعد سے پوری طرح باخبر تھے اور انہوں نے اختلافات کی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ دستور ساز اسمبلی کے ایک ممتاز بنگالی رکن ابوالمنصور احمد نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’’پاکستان ایک منفرد ملک ہے۔ اس کے دو بازوؤں کے درمیان ایک ہزار میل سے زائد فاصلہ ہے۔ مذہب اور مشترکہ جدوجہد کے سوا ان کے درمیان کوئی قدر مثلاً زبان، ثقافت غرض کچھ بھی مشترک نہیں، صورتحال کچھ یوں تھی کہ قیام پاکستان کے بعد وہ جوش جذبہ سرد پڑ گیا تھا جو تحریک آزادی کے دوران تھا۔ ان حالات میں دونوں صوبوں کو متحد رکھنے کے لیے گہری فراست، تحمل اور سیاسی رواداری از حد ضروری تھی مگر بدقسمتی سے محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کے بعد کے سیاستدان اس بصیرت سے عاری تھے۔
مرکزی حکومت کی بعض غلط اور بچگانہ پالیسیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے لوگوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اس احساس کو پروان چڑھانے کی بھرپور سعی کی۔
اسی صورتحال میں ایک جانب لسانیت اور علاقائیت کے جن بھی اپنا سر اٹھانے لگا دوسری طرف بنگال بنگالیوں کا ہے ‘‘کے نعرے سنائی دینے لگے اوراس سے بھی قبل بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کے لیے تحریکیں شروع ہوگئیں، ساتھ ہی احساسِ محرومی کو انتظامی اور سرکاری عہدوں پر مغربی پاکستان کے لوگوں کی اکثریت نے بڑھایا آبادی کے اعتبار سے مشرقی پاکستان برتری پر تھا مگر انتظامی عہدوں اور فوج میں بھرتیوں وغیرہ کے معاملے میں مغربی پاکستان کے لوگوں کا پلڑا بھاری تھا۔ چنانچہ دونوں صوبوں کے درمیان عدم مساوات نے مشرقی پاکستان کے عوام میں بددلی اور اضطراب کو جنم دیا کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک کیا جا رہا ہے کہ محنت وہ کرتے ہیں اور جب کہ فائدہ مغربی پاکستان کو جاتا ہے اور اس معاشی بدحالی کے اس ازالے کی بجائے مغربی پاکستان میں ہی صنتعوں کے قیام پر سارا سرمایہ لگایا گیا
ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادی گئی تھی کہ مغربی پاکستان ان کا استحصال کررہاہے۔مغربی پاکستان میں رہنے والے بہت خوشحال ہیں جبکہ بنگالیوں کے پاس کچھ بھی نہیں، اس طرح مشرقی کی پاکستان کے عوام کی غلط فہمیوں کو پروان چڑھانے کی کوئی کسر باقی نہ رہی، ساتھ ہی بعض عاقبت نا اندیش سیاستدانوں نے نفرت کی خلیج کو وسیع کرنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ ’’اِدھر ہم اْدھر تم‘‘ کا نعرہ لگا کر مشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدگی اور تقسیم پاکستان کی راہ دکھانے والے یہی سیاستدان تھے جن کو ملکی اور ملی مفادات سے بڑھ کر اپنی کرسی اور اپنی سیاست عزیز تھی۔ ان کے نزدیک ان کی سیاسی مسند کی حیثیت کے سامنے قومی مفادات کی کچھ اہمیت نہ تھی۔ وہ اپنی مسند اور سیاست بچانے کے لیے ملک کو تقسیم کرنے کی قربانی دینے پر تیار ہو چکے تھے۔
پاکستان میں انتخابی مہم جو کہ یکم جنوری 1970ء کو شروع ہوئی تھی، سوا گیارہ ماہ چلتی رہی جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ تھی اس میں شیخ مجیب نے ”چھ نکات“ اور بھٹو نے ”روٹی، کپڑا اور مکان“ کے نعروں کے ساتھ حصہ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پورا سال چھ نکات کی کوئی مخالفت نہ کی جبکہ مجیب کی عوامی لیگ نے انہی نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی۔ دونوں لیڈر لیگل فریم ورک آرڈر کی دھجیاں اڑاتے رہے مگر مارشل لاء ضابطے سوئے رہے۔ دراصل عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں علاقائی جماعتیں تھیں اور ان دونوں کے مشرقی اور مغربی بازوؤں میں الگ الگ حاصل اکثریت کرنے سے ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ بہرحال7 دسمبر 1970ء کو قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئےجس میں عوامی لیگ کو واضح اکثریت سے برتری حاصل ہوئی یوں انتخابات 1970ء نے بھٹو کو اپوزیشن لیڈر کا مقام دیا تھا جو انہیں کسی طور گوارا نہ تھا۔ تقریباً سال بھر کی انتخابی مہم میں انہوں نے مجیب کے چھ نکات کی مخالفت نہ کی،مگر اب انتخابات کے بعد اچانک ان کی مخالفت شروع کر دی۔ اگر چھ نکات ایسے ہی برے تھے تو انتخابات سے پہلے وہ جنرل یحییٰ سے کہہ کر مجیب کو چھ نکات کے پرچار سے روک سکتے تھے، مگر انتخابات کے بعد ان کی مخالفت سیاسی مفاد تھی۔ یہی سے دونوں حصوں کے مابین نفرت کی خلیج بڑھتی گئی ملکی سلامتی کی حدود کے اندر رہ کر چھ نکات کے معاملے میں بنگالیوں کو مطمئن کیا جا سکتا تھا، مگر یہاں حصول اقتدار کی جنگ چھڑ چکی تھی اس وعدہ خلافی پر مشرقی پاکستان میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا وہ اس لیے کہ چنگاری تو سلک رہی تھی بس تیل ڈال کرآگ لگانا باقی تھا جو انتخابات کے بعد ہوگیا تھا اس احتجاج کو دبانے کے لئے 25 مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ جس میں بہت بڑا ہاتھ بھارت کا بھی تھا۔ اس نے مذاکرات کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ دوسری طرف بھارت ایک کثیر سرمایہ خرچ کیا بنگالیوں کو مکتی باہنی کی صورت میں عسکری تربیت اور اسلحہ فراہم کیا جس کے بل بوتے پر مکتی باہنی والوں سے مشرقی پاکستان میں شورش اور بغاوت شروع کروائی گئی۔ کیفیت یہ تھی کہ مکتی با ہنی کے غنڈوں اور درندوں نے مشرقی پاکستان میں خون کی ہولی کھیلنا شروع کردی تھی۔ محب وطن پاکستانیوں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا۔ کسی کی بھی عزت و جائیداد محفوظ نہ تھی۔
ان حالات میں پاکستانی فوج نے حالات کو درست کرنے کے کیے آپریشن شروع کیا اور بقول جنرل اسلم بیگ:
’’مشرقی پاکستان میں جب مزید فوج کی ضرورت ہوئی تو ہمارا ایک ڈویڑن کھاریاں سے ہوائی جہازوں کے ذریعے 30 مارچ کو ڈھاکہ پہنچا اور سلہٹ سے لے کر چٹا کانگ تک کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ہمارے پاس صرف رائفلیں اور لائٹ مشین گنیں تھیں۔ توپ خانہ تھا اور نہ ہی ٹینک۔ اس طرح وہاں کل چار ڈیڑن فوج نے مارچ سے اگست تک صرف پانچ ماہ کی مدت میں پورے مشرقی پاکستان پر حکومت کی رٹ قائم کر دی اور شہروں، قصبوں اور گھروں پر صرف پاکستانی پرچم ہی نظر آنے لگا۔ اس وقت ہمارے جنرل کمانڈنگ آفیسر جنرل شوکت رضا نے جو عسکری دانشور مانے جاتے تھے،اپنی سفارشات پیش کیں کہ فوج نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اس لیے لازم ہے کہ اب سیاسی عمل شروع کیا جائے اور سول انتظامیہ اپنی ذمہ داری سنبھالے۔مگر ان کی سفارشات کو رد کر دیا گیا اور عوامی لیگ کو حکومت سازی سے روک دیا گیا جس پر بھارت نے مکتی باہنی اور فوج کے ساتھ ایک بار پھر پاکستان پر چڑھائی کر دی جس کے ساتھ ہی عوام کے دلوں میں سالوں سے پکتے نفرت کے لاوے پھٹ گئے، آندھیاں اور بگولے طوفان میں بدل گئے مشرقی پاکستان ایک بار پھر جنگ کے ہولناک سایوں کی لپیٹ میں آگیا۔ پاکستانی فوج نے معاملات سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی مگر اب پانی سرسے گزرچکا تھا جس کے سامنے بند باندھنا ممکن نہیں تھا۔‘‘بالآخر باقی ماندہ پاکستان کو بچانے اور مسلمانوں کے لہو کے دریا کو روکنے کے لیے مسلم امہ کی چودہ سوسال کی تاریخ میں وہ سیاہ دن بھی آیا کہ جب 16دسمبر 1971کو مسلمان فوج کافروں کے سامنے سرینڈر کر چکی تھی۔پاکستان اپنے عین عالم شباب میں دولخت ہو چکا تھا۔ امت مسلمہ غم میں ڈوبی ہوئی تھی اور بھارتی ہندو خوشی کے شادیانے بجاتے نہیں تھکتے تھے کہ انہوں نے تقسیم برصغیر اور 65 کی ہزیمت کا بدلہ لیا تھا۔ اندرا گاندھی بڑھکیں مار رہی تھی کہ ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔بھارت کا موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی آج فخر سے اعتراف کرتا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام میں سب سے اہم کردار بھارت کا ہے، پچھلے دنوں بنگلہ دیش کے سرکاری دورے پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے یہ اعتراف گناہ بڑی ڈھٹائی اور فخر سے کیا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے اس سیاہ ترین باب اور اس کے حقائق سے نظریں چرانے کے بجائے، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیں درحقیقت اِس تقسیم کو سازش کہنا دراصل اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے مترادف ہے۔ دنیا بھر میں ایک مثال کثرت سے دی جاتی ہے کہ سانحات کبھی اچانک رونما نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے غلطیوں کا تسلسل ہوتا ہے۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-