اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اسلام نے استاد کو بےحدعزت و احترام عطاکیا ۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ نے ’’انمابعثت معلما‘‘(مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے )۔استاد کو معلم و مربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے، کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،معاشرتی اور مذہبی نیکیوں کی کنجی اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔‘‘ معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔زندگی کے تمام پیشے پیشہِ تدریس کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ خواہ عدلیہ، فوج، سیاست، بیوروکریسی،صحت ،ثقافت،تعلیم ہو یا صحافت یہ تمام ایک استاد کی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔امام ابوحنیفہؒ سے ان کے عزیز شاگرد امام یوسف ؒنے پوچھا کہ ’’ استاد کیسا ہوتا ہے؟‘‘۔ آپ ؒ نے فرمایا ’’استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہوتو غور سے دیکھو ،اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے۔‘‘امام ابو حنیفہ ؒ کے اس قول کی روشنی میں اگر اساتذہ کو پرکھا جائے تو معاشرے میں مادیت پرستی کا غلبہ ہمیں واضح نظر آئے گا۔استاد معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے والا ہوتا ہے لیکن صد افسوس کہ آج یہ پیشہ اپنی عظمت اور وقار کو تقریبا کھو چکا ہے۔
استاد کا مقام مادیت پرستی اور ماہانہ مشاہیرہ سے بالاہے۔اس سے یہ مراد ہرگز نہ لی جائے کہ اساتذہ کی اپنی ضروریات نہیں ہوتیں۔اساتذہ کے ہاتھوں میں معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ کی کنجی ہونے کی وجہ سے ان کا مقام نمایاں و بلند ہوتا ہے۔اسی بنیاد کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرہ استاد کو ایسے نمایاں مقام پر فائز کرنے کے ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ اساتذہ کی مراعات اس طرح ہونی چاہیے کہ انہیں اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہ آئے۔استاد اپنے شاگردوں کی کردار سازی کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے۔اپنے طلباء کے دلوں سے کدورتوں،آلودگیوں اور تمام آلائشوں کو دور کرتے ہوئے اس کو ایمان ،خوفِ خدا ،اتباعِ سنت اور آخرت کی جواب دہی کے احساس سے ہم کنار کرتا ہے۔طلباء کی کرداری سازی کے لئے خود بھی تقوی و پرہیز گاری کو اختیار کرتا ہے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔لیکن آج اسکول، کالجز، یونیورسٹیز تعلیم کی اصل غرض و غایت سے انحراف کرتے ہوئے مادہ پرستی کے فروغ میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔
یہ ادارے ڈاکٹر ،انجینئر ،سائنسدان ،سیاست دان، پروفیسر، ٹیچرز،اور فلاسفرز بنانے میں تو کامیابی حاصل کر رہے ہیں لیکن ایک آدمی کو انسان بنانے میں (جو کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے ) ناکام ہورہے ہیں۔ اساتذہ کی ان حالات میں ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ طریقہ تعلیم اور نظام تعلیم میں تبدیلی کی سعی و کوشش کریں۔ اپنے عمل و کردار سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو مثبت تعلیمی نظام کی طرف راغب کریں۔ہنرمندی کے ساتھ دیانت داری اور امانت پسندی کا ایک اعلی نمونہ قائم کریں۔تعلیمی ادارہ جات سے دھوکے باز سیاست دانوں کی بجائے باکردار و امانت دار سیاست دان پیدا کریں۔ایسے انجینئر اور ڈاکٹر تیار کریں جو لوگوں کے علاج کو نہ صرف اپنا ذریعہ معاش بنائیں بلکہ اس خدمت کو عبادت کے درجہ تک پہنچا دیں۔اساتذہ اپنے شاگردوں کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اپنے پیشوں میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ انسان بھی باقی رہیں۔
نوجوان نسل کی کوتاہیاں اپنی جگہ ،والدین کی لاپرواہی، نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کی خامیاں بھی اپنی جگہ مگرکارِ پیغمبری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اور قوم و ملت کے ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہونے کی بناء پر اساتذہ اس بحران کا جائزہ لیں اور خود اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کا تعین کریں ۔اگراساتذہ سینکڑوں مسائل اور اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی کوتاہیوں کا تھوڑا سابھی ادارک کر لیں تب یقیناً یہ احساس قوم و ملت کی ترقی کی جانب پہلا قدم ہوگا۔ آج ہمارےمعزز اساتذہ اپنے جائز حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور اصولاً دیکھا جائے تو ان کو موجودہ صورتحال سے دوچار کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ان کے اپنے شاگرد ہیں جو ان اساتذہ سے علم کا خزانہ حاصل کرنے کے بعد یہاں تک پہنچے ہیں، اب یہ ہمارے معزز اساتذہ کا کام ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کی تربیت میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئ تھی!!!!
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-