یورپ میں یہودیوں کے قتل کو ہولوکاسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کو 80 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس قتل عام کے مجرموں پر جرمنی کے شہر نیورمبرگ میں چلائے گئے تاریخی مقدمات کا فیصلہ ہوئے دہائیاں بیت چکی ہیں اور یہودیت کی طرف سے ہرسال ستائیس جنوری کو بین الاقوامی طور پر ہولوکاسٹ کی یاد کا دن میں منایا جاتا ہے اور مرگ انپوک کے بعد نسل کشی کے جرم سے متعلق بچاؤ اور سزا کا 1948 کا کنونشن پہلی قانونی دستاویز ہے جس میں نسل کشی کو جرم کی حیثیت دی گئی ہے۔ہولوکاسٹ ایک منظم، سرکاری سرپرستی میں ہونے والا ظلم اور قتلِ عام تھا جس میں نازی جرمن حکومت اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں کی جانب سے چھ ملین یورپی یہودیوں کو ہلاک کیا گیا۔ ہولوکاسٹ ایک ارتقائی عمل تھا جو 1933 اور 1945 کے درمیان پورے یورپ میں واقع ہوا۔ہولوکاسٹ کی بنیادی وجہ یہود دشمنی تھی۔ یہود دشمنی، یعنی یہودیوں کے خلاف نفرت یا تعصب، نازی نظریے کا بنیادی اصول تھا۔ یہ تعصب بھی پورے یورپ میں پھیل چکا تھا۔نازی جرمنی کی جانب سے یہودیوں پر ظلم و ستم مسلسل بڑھتا گیا اور 1933 سے 1945 کے درمیان مزید شدید اور انتہا پسندی کا حامل ہو گیا۔ اس انتہا پسندی کے شدید ترین نتیجے کے طور پر چھ ملین یہودیوں کا اجتماعی قتلِ عام کیا گیا۔
عالمی جنگِ عظیم دوم کے دوران، نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں نے جینے کے جان لیوا حالات، ظالمانہ سلوک، اجتماعی طور پر گولیاں مارنے اور گیس سے ہلاک کرنے، اور خصوصی طور پر بنائی گئی قتل گاہوں کے ذریعے تقریباً ہر تین یورپی یہودیوں میں سے دو کو موت کے گھاٹ اتارا۔ 1941–1942 کے آغاز میں، جرمنوں اور ان کے اتحادیوں اور حلیفوں نے اقلیتی یہودی بستیوں کے رہائشیوں کا اجتماعی قتلِ عام کیا اور ان بستیوں کے انتظامی ڈھانچے کو تحلیل کر دیا۔ وہ اس عمل کو “خاتمہ” کہتے ہیں۔ یہ “یہودیوں کا آخری حل” کا حصہ تھا۔ اقلیتی یہود بستیوں میں رہنے والے یہودیوں کی اکثریت کو یا تو قریبی قتل گاہوں میں یا پھر دور دراز کی قتل گاہوں تک منتقل کر کے اجتماعی طور پر گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا۔ زیادہ تر قتل گاہیں جان بوجھ کر جرمنی کے زیرِ تسلط پولینڈ کی بڑی اقلیتی یہود بستیوں کے قریب یا آسان رسائی کے حامل ریلوے راستوں پر بنائی گئی تھیں اگر موجودہ دور میں ہولوکاسٹ اور فلسطنیوں پر اسرائیل کے مظالم کا موازنہ کیا جائے تو اسرائیل 75 سال سے کہیں ذیادہ نہتے فلسطینیوں پر ہولوکاسٹ کا کھیل رہا ہے اگر میں یوں کہوں کہ اسرائیلی ہٹلر تو قطعا غلط نہیں ہیں کیونکہ اسرائیلی رہنما خود کو ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں، کسی بھی ضابطے پر عمل کرنا ان کی توہین ہے، چاہے اس اقدام پر امریکہ کی خوشنودی ملنے کا امکان ہی کیوں نہ ہو اس لئے غرب اردن میں بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی فلسطینی حکومت ہے جس میں فتح تنظیم کا اہم کردار ہے۔ تاہم غرب اردن غربِ اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 86 فیصد فلسطینی ہیں جبکہ 14 فیصد لوگ اسرائیلی آباد کار ہیں جو ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70، 80 اور 90 کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھیں مگر گذشتہ 20 برسوں میں ان کی آبادیوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اسرائیل ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی سہولیات فراہم کرتا ہے اور یہودیوں کی حفاظت کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی بستیوں پر اسرائیل کی فوج مظالم کرتی ہیں صہیونی فوج فلسطینیوں کی سرکاری سرپرستی میں نسل کشی اور قتل عام کر رہی ہے ظالم اسرائیل کے ہمسائے ممالک سمیت فلسطین کی غزہ پٹی میں سیکڑوں مقامات پر فضائی حملے کر جن میں زیتون اور خان یونس کے علاقے بھی شامل ہیں ، اسرائیلی بمباری میں شہید فلسطینیوں کیلئے قبرستانوں میں جگہ کم پڑنے لگ گئی جس کے بعد شہداء کی اجتماعی تدفین شروع کردی گئی ہے ، غزہ کے کوئی علاقوں میں پانی ، خوراک اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے ، اسپتالوں میں سہولیات ختم ہوتی جارہی ہیں جبکہ عالمی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں شعبہ صحت مکمل طورپر تباہی کے دہانے پر ہے ، بدترین صورتحال کا سامنا ہے –
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران غزہ میں 10لاکھ افراد بے گھر ہوچکے۔مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن دو ریاستی حل میں موجود ہے، 1967 سے پہلے والے بارڈرز کے تحت قابل عمل، خودمختار ریاست فلسطین ہونی چاہیے، فلسطین کی ایسی ریاست ہو جس کا دل القدس الشریف ہو۔ پاکستان اقوام متحدہ، او آئی سی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کا اعادہ کرتا ہے۔اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے سرگرم رہی ہے، پوری دنیا سے یہودی اکٹھے کر کے فلسطین میں بسانے اور فلسطینیوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے جرم میں امریکا اورمغربی ممالک برابر کے شریک ہیں،یورپی ممالک میں جانوروں کے حقوق پر توبہت بات ہوتی ہے لیکن فلسطینیوں کی داد رسی کر نے والا کوئی نہیں۔اسرائیل چاہے بم برسائے، ناکہ بندی کرے، فلسطینیوں کی نسل کشی کرے، ان کا معاشی قتل کرے، ناجائز دیوار کی تعمیر کرے، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرے، اسے کوئی روکنے والا ہے نہ باز پرس کر نے والا بلکہ اسرائیل کو خطے کا پولیس مین بنانا اور پھر اس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کا حصول عالمی قوتوں کا پسندیدہ رستہ بن چکا ہے موجودہ وقت غزہ کی پٹی میں زمینی کارروائی کے دوران شہری علاقوں میں لڑائی ہوگی اور اس سے شہری آبادی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔ غزہ میں فضائی حملوں سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ چار لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے وہ اس لئے کہ اسرائیلی قیادت کا کہنا ہے کہ اس کے زمینی آپریشن کے ذریعے دنیا سے حماس کا نام و نشان مٹ جائے گا اور غزہ ویسا نہیں رہے گا جیسا ہوا کرتا تھا۔یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے جواب اسرائیلی فوج کم از کم 150 یرغمالیوں کو بچانا چاہتی ہے جنھیں غزہ میں نامعلوم مقامات میں رکھا گیا ہے۔
أخر میں میرا ذاتی سوال ہے نام نہاد آزادئ رائے کا پرچار کرنے والے اور اقوام متحدہ کے کرسی براجمانوں کو کہ نسل کشی کے جرم سے متعلق بچاؤ اور سزا کا1948کا کنونشن دستاویز ہے جس میں نسل کشی کو جرم کی حیثیت دی گئی ہے کیا یہ قانون فرعون ظالم ہٹلر نیتن یاہو پر لاگو نہیں ہے اگر اس کا جواب کسی پاس نہیں ہے تو اس مسلئے کو حماس حل کرے گی۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-