ہمارے علمی چشمے، سرکاری اسکول اور تعلیم فروش دُوکانیں

کسی بھی قوم میں علمی انقلاب کے بغیرملکی ترقی ممکن نہیں آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز دیکھیں تو علم ہوگا کہ انہوں نے فروغ تعلیم کے لیے عام بندے کے لیے کس قدر آسانیاں پیدا کیں انہی آسانیوں نے عام بندے کو خاص بندے بننے میں مدد دی اور پھر انہی لوگوں نے عوامی اور ملکی وسائل میں چار چاند لگا دئیے تعلیم کے دورُخ ہیں ایک دینی اوردوسرا دنیاوی جبکہ دنیاوی تعلیم دولت کمانا سیکھاتی ہے مگر دینی تعلیم دنیا و آخرت میں انسان کو خود ایک دولت بننا سکھاتی ہے جس میں عمل کی روح ماند چراغ احساس کی روشنی سے انسانیت کے زہنی اندھیرے مٹاتی ہے اور دوسرا دنیاوی تعلیم جس میں انسان اپنے مقصدنوکری تک پہنچنے کے لیے ہر جائز ناجائز حد سے گزرنے سے بھی گزیز نہیں کرتا وجہ یہ ہے دنیاوی تعلیم کو اسکول مالکان بطور کاروبار فروخت کر تے ہیں جہاں تعلیم خودغرض لوگوں کا دھندہ ہو وہاں مہنگی سہولیات میں سستے انسان بستے ہیں۔

ملک میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو تعلیم مہیا کرناریاست کا سب سے اہم فریضہ ہے اور ہماری ریاستی کوتاہیوں کی وجہ سے تعلیم کاروبار کے طور پر کھل کر بازار میں نیلام عام ہوتی ہے اور ریاست علم کے معاملے میں اتنی غیر سنجیدہ اور بے فکر ہے کہ وہ ایک ہی تعلیمی نصاب لاگو نہیں کروا سکی جس کی وجہ سے ہر تعلیم بیچنے والی دوکان پر ان کی اپنی ایجاد کردہ پیکنگ نمائش کے لیے رکھی جاتی ہے اور اندر وہی اے بی سی ایک دو تین الف ب پ والا علم میک اپ کرکے رکھا ہوتا ہے۔ اگر آپ تاریخ ساز شخصیات جن میں بانی پاکستان محمد علی جناح علامہ اقبال ؒ لیاقت علی خان سرسید احمد خان جیسے لیڈروں کی ابتدائی تعلیم کے حوالے سے تاریخی کتب کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ سارے ہیروزٹاٹ پر بیٹھ کر تختی سلیٹ تختہ سیاہ والے سرکاری اسکول سے ہی ابھر کر تعمیر دنیا میں تاریخ رقم کر گے ہیں کسی بھی ملکی اداروں کے اعلی عہدوں پر پہنچے انسانوں کی تعلیمی بنیاد کے بارے میں جائیں تو علم ہوتاہے کہ وہ کسی نا کسی سرکاری سکول سے ہی اوپر آئے ہوتے ہیں اور جب صوبے یا ملکی سطح پر سالانہ تعلیمی امتحان میں اؤل پوزیشن پر آنے والے طلباء کے بیک گرونڈ کے بارے میں دیکھیں تو وہ کسی گاؤں دیہات کے غریب محنت کش کے بچے ہوتے ہیں کیا یہ مہنگی تعلیم بیچنے والے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ نہیں؟آج بھی سرکاری تعلیمی ادارے بے شمار خامیوں کے باوجود قابل فخر عملوں سے بھرے پڑے ہیں مگر بے شمار اصلاحات کے منتظر بھی ہیں سرکاری اسکول کے استاد آسمانی تحفہ علم کی قیمت اس طرح وصول نہیں کرتے تھے جس طرح آج کے پرائیوٹ تعلیمی ادارے منصوبہ بندی سے کرتے ہیں جس میں ٹیچرز کو کم تنخواہ دینے اور والدین سے زیادہ فیس لینے جیسے حربے بزنس کی کامیابی سمجھے جاتے ہیں۔سرکاری اسکول میں بھی نااہل لوگ ملک کے مستقبل کو تعلیم کے نام پر برباد کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں مگر وہاں اچھی بات یہ ہے کہ ان کی گرفت کے لیے قانون بھی موجودہ ہے اور اس قانون کو پرائیویٹ اسکول کے غیر قانونی ظلموں سے متاثر والدین کو آسان کاروائی کروانے کے متعلق آگاہی بھی دینی چاہیے۔

اقوام متحدہ کے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مطابق دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی فہرست میں پاکستان سب سے اوپر ہے اس کی وجہ سالوں سال ہوش روبا مہنگائی اور بے روزگاری دوسرا پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مہنگی تعلیم جو ہر نچلی سطح کے انسان کے بس کا روگ نہیں جہاں ایک دفعہ بچہ داخل ہو گیا تو پھرداخلہ فیس ماہانہ فیس یونیفارم کتابوں کاپیوں کے خرچے کے علاوہ مینا بازار سلف پارٹی ون ڈش پارٹی ایونٹ فنڈ بچوں کے ایک بار استعمال ہونے والے لباس پر خرچہ بچے اسکول کے لیے پودے خرید کر آئیں جیسے کئی غرض مندانہ جوازوالدین اور بچوں پر مسلط کر دئیے جاتے ہیں اوراسکول انتظامیہ والدین کو قائل کرنے کے لیے علمی اسلحے سے لیس ہو کر دلیلوں کی فائزنگ سے زہنوں کو اس طرح زخمی کرتی ہے کہ غریب والدین خدا سے تعلیم ملنے والی جگہ پراحساس انسانیت کے ملنے کی دعائیں کرنے لگتے ہیں زندہ آنکھوں میں مردہ خواب لیے کتنے والدین اسکولوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اسکول والے ان کی آنکھوں میں دیکھنے کی بجائے ان کی جیبوں میں دیکھتے ہیں۔

ان کے لیے پڑھانے والے ٹیچرز اور پڑھنے والے طالب علم دونوں مالی مفاد کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ ٹیچرز اور طالب علم دونوں معاشرے کے حسن کے مقام سے بے قصور نیچے گرتے جا رہے ہیں ہر پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں پڑھتے طالب علموں کے والدین کئی ناجائز ظلموں کے خود شاہد ہیں یاد رکھیے کہ جس اسکول میں بچے خود کو پابند اور قید ہونے کے ساتھ الجھن و پریشانی میں مبتلا ہو کر حصول تعلیم کو ایک تکلیف دہ عمل سمجھنے لگیں وہ اسکول بچوں اور والدین کے لیے وقت اور پیسے کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف سرکاری اسکول جہاں ٹیچرز بھرتی ہونے کے لیے ایم اے اور بی ای ڈی کی ڈگری ہونا لازم ہے یعنی ٹیچرز کی اپنی تعلیم کا بھی تو کوئی پیمانہ ہونا چاہیے وہ لازمی طور پر سرکاری اسکول میں ہوتا ہے جہاں لوگ ماہانہ چند روپوں کی فیس میں بچے داخل کروانا کم پسند کرتے ہیں جس کی وجہ اسکول عمارت میں موجود سہولیات کا فقدان تصور کیا جاتا ہے جبکہ والدین کو عمارت کی بجائے علم سے غرض ہونی چاہیے اور اس کے برعکس کئی جگہ پرائیویٹ اسکول جہاں ٹیچرز کی قابلیت سرکاری ٹیچرز سے بھی کئی درجہ کم ہوتی ہے مگر عمارت کی خوبصورتی کلاس روم میں ایل سی ڈی جھولے ٹیبل کرسیاں اور آیا جیسی چیزیں بچوں اور والدین کو علم نظر آ تی ہیں جبکہ کلاس ٹیچرز اور اسکول سی ای او کی اہلیت کتنے لوگ دیکھتے ہیں جس علم کے حصول کے لیے آئے ہیں وہی نامعیاری حاصل ہوا تو بچے لے کر کیا جا رہے ہیں گورئمنٹ ایجوکیشن منسٹری کو ایسی قانون سازی کرنی چاہئے کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا کے امتحانات اور رزلٹ کو خود جانچتیں تاکہ مصنوعی رزلٹ سے کلاس کے سارے بچوں کو ایوارڑ اور پوزیشین دے کر والدین کو خوش اور مطمن کرنے کی بجائے بچوں کوزہنی طور پر حاصل شدہ تعلیم سے جانچاجاسکے چھوٹے سے زہن پر غیر ضروری علم اور کمزورجسم پر غیر ضروری کتابوں کے بستے کا وزن اُٹھوانابھاری فیسوں کی وصولی کے لیے بچے پر ظلم کے مترادف ہے پھر انہیں ہوم ورک دے کر والدین کو بھی ملوث کر لیا جاتا ہے تاکہ اسکول کی کوتاہیاں اُن پر ڈال دی جائیں جنہوں نے شکایت کرنی ہے۔
تعلیم سے ترقی کرتے ممالک نے اپنے شعبہ تعلیم کو جو ترقی دی ہے ان میں ابتدائی تعلیم کو زہنی جسمانی بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے اسکولوں میں بچوں کو نہ بستے دئیے جاتے ہیں نہ ہوم ورک دیا جاتا ہے تمام تعلیمی عمل اسکول میں ہی مکمل کروایاجاتا ہے بچے حصول تعلیم کو لطف اندوز طریقے میں موصول کرتے ہیں۔بچوں میں تعلیم سے محبت اور لکھنے پڑھنے کاشوق پیدا کرنا استاد کا پہلا ہنر ہوتا ہے ایسا انداز اپنایا جاتا ہے جو ہر بچے کو حصول علم کی جانب راغب کر لے۔ملکی عوامی بربادی میں ایک بڑا حصہ اس عمل کا ہے کہ والدین اپنے پیٹ کاٹ کر بچوں کومہنگی تعلیم حاصل کروائیں اور پھر انہیں نوکری دلوانے کے لیے اپنی جائیدادرشوت کی نظر کر دیں ان حالات نے کرپشن و ناانصافی کے کبھی نہ بند ہونے والے دروازے کھولے ہیں تعلیم خرید کر تعلیم بیچنے کی روایات نے اخلاقیات کی تربیت کو دفن کرکے رکھ دیا ہے جس نے پڑھی لکھی نافرمان نسلیں تیار کیں اور حسن سلوک کا جنازہ نکال دیا۔وہ جو طالب علموں کوتاحیات استاد کا حیا سیکھانے والا کردار تھا وہ یہی تھا کہ انہوں نے تعلیم و علم کو عبادت کی طرح معاشرے میں پیش کیا اور اس قربانی سے بندے کے پیسے نہیں بلکہ پورے بندے ہی تاحیات کما لیے۔اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ٹیچرز اور عمارتوں کے مالی تقاضے نہیں ہوتے بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس مقدس پیشے کو کاروبار نہیں ہونا چاہئے اور ضروریات پوری کرنے کے لیے مناسب فیسوں کے ساتھ غیر ضروری اخراجات سے بچا کروالدین اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں فراہم کیں جائیں۔علم فروش لوگ جسم فروش ضمیر فروش جیسے لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں جن کا دیا ہوا علم قابلیت شعورادب برکت و کامیابی سے خالی ہوتا ہے جس کی منزل نوکری کے نام پر نوکر بننا ہوتا ہے یاد رکھیے تعلیم راستہ ہے اور علم منزل ہے اس تعلیم کے راستے کو جو چیز روشن کرتی ہے وہ تربیت ہے۔

پیسوں سے مہنگے انسان کے ہاتھوں پاکیزگی اور آسانی سے حاصل ہوا تعلیم و علم مقام کامیابی پر بغیر رشوت و شفارش پہنچا دے تو اس بندے کے ہاتھو ں سے ساری عمر لوگوں میں خیروبرکت تقسیم ہوتی ہے یہ فروغ علم اور حصول علم آسمانی میعار کاکام و مقام ہے اس کے لیے چنے جانے والے بندوں کے لیے اس سے بڑا مقام و انعام ہو ہی نہیں سکتاکیونکہ یہ انبیاء اکرام اور ان کے ہاتھوں فیض علم سے مستفید ہونے والے اُمتوں کا پیشہ نہیں شیوہ رہا ہے۔آج بھی تعمیر انسانیت میں درس وتدریس سے وابستہ طالب علم کے پیروں تلے فرشتے پر بچھاتے ہیں اور استاد وں کے لیے عرش سے نور کے ہار لاتے ہیں۔
جیسے نقصان اٹھانا نہیں آتا اُسے نہیں معلوم فائدہ کیسے کہتے ہیں اور اس فائدے سے دونوں ہاتھوں اجر کی دولت جو لوگ سمیٹ رہے ہیں یا جنہیں صیح معانوں میں خدا اور نبیوں کی سنت پر فروغ علم کے لیے معاشرے کا حسین پہلو سمجھا مانا جاتا ہے تو یہ وہ لوگ ہیں جو مفت تعلیم مہیا کرنے پر کام کر رہے ہیں وہ فرد واحد ہو یا تنظیم کی صورت ہوں ان کے ہاں علم کی فضیلت جان کر علم کا ترجمان ہونا اس بات کی زمہ داری عائد کرتا ہے کہ ہر طرح کے حالات کی جنگ لڑ کر بھی علم کو عام کیا جائے اور علم کی امانت کو خدا کے بندوں کو پہنچانے میں خیانت و خود غرضی نہ کی جائے انہیں لوگ پیاسوں زہنوں کے لیے علمی چشمے کا درجہ دیتے ہیں۔سب سے پہلاصاحب کتاب خود خداہے جس نے ابتداء حیات انسانی سے لے کر اختتام حیات انسان تک تمام زمانوں میں کامیابی کے لیے آسمان سے علم کو کتابی شکل میں اتارا جن میں قرآن پاک ایسی کتاب ہے جس کے ایک ایک حرف میں اتنے منظر ہیں جتنے دنیا بھر میں اسے پڑھنے والے ہیں اصل میں علم کا اصل مرکز انسان اور خدا شناسی ہے اور قدرت کا واحد انمول و نایاب خزانہ علم ہے جس نے انسانیت کے لیے ہر دور میں ترقی کے راستے روشن کیے جو اس علمی روشنی کو انسانوں میں مفت و آسان مہیا کرتا ہے انہیں خدا آسمان پر فرشتوں کے سامنے رکھ کر فخر کرتا ہے جنہوں نے علم سے خدا کمانے کے راستے کو سمجھا اور چن لیا انہیں دنیا وی فائدوں کے لیے علم کو استعمال کرنا خسارے کی صورت نظر آتا ہے جبکہ علم اپنے خادموں کودنیا و آخرت میں پچھتاوے کے انجام سے دور رکھتا ہے۔استاد پر رزق وعزت کا لباس رہتا ہے۔

جنوری 2003میں پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف بذریعہ چین جنوبی کوریا کے دورے پر گے جنرل مشرف کا طیارہ جنوبی کوریا کے لیے اُڑان بھرنے ہی والا تھا کہ جنوبی کوریا نے صدارتی عملے کو ٹیک آف کرنے سے روک دیاچینی اور پاکستانی حکام ایک گھنٹے تک پریشان رہے پھر جنوبی کوریانے اُڑنے کی اجازت دی مشرف جنوبی کوریا پپہنچے تو عملے نے معزرت کی کہ ہمارے پرائمری کے اسٹوڈنٹ کے امتحان ہو رہے ہیں ہم پیپر کے دوران طیاروں کے ٹیک آف لینڈنگ پر پابندی لگا دیتے ہیں بچے پیپر کے دوران شور کی وجہ سے اپنی یکسوئی کھو دیتے ہیں آپ کا طیارہ عین پیپر کے وقت پہنچنا تھا اس لیے ہم نے آپ کو منع کر دیا یہ جواب جنرل مشرف کی طرح آپ کے لیے بھی حیران کن ہوگالیکن اس جواب سے پتا چلتا ہے کہ زندہ قومیں اپنے اسٹوڈنٹ کو حصول تعلیم میں کتنی اہمیت دیتی ہیں

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-