-” يا ايها الناس! إن ربكم واحد وإن اباكم واحد، الا لا فضل لعربي على عجمي ولا عجمي على عربي ولا احمر على اسود ولا اسود على احمر إلا بالتقوى * (إن اكرمكم عند الله اتقاكم) *، الا هل بلغت؟ قالوا: بلى يا رسول الله! قال: فيبلغ الشاهد الغائب”.
(ترجمہ)سیدنا جابر رضى اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایام تشریق کے درمیانے دن کو خطبۃ الوداع ارشاد فرمایا اور فرمایا: ”لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری تعالىٰ ہے: ”اللہ تعالىٰ کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے“، خبردار! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ پھر فرمایا: ”حاضر لوگ یہ باتیں غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔“
فرمان نبوی کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑتی مگر پھر بھی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں لکھنا ضرور چاہوں گی کیونکہ اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں کم از کم ایک ہزار ہندو اور مسیحی برادری کی خواتین کا ہر سال جبری طور پر مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے، تاہم ہندو برادری کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں اور ممکنہ طور پر ایسے کیسز کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پر بات کرنا اور ان کے حق میں بولنا اس حد تک خوف کی علامت بن چکا ہے کہ پاکستان بھی اقلیتوں کے حقوق کے لیے نئے کمیشن قوانین بنانے میں ریاست پاکستان بھی ناکام رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پاکستان میں 11 اگست قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر کو آئین اور نصاب کا حصہ نہیں بنوا سکے بانی پاکستان کی 11 اگست کی تقریر یہ بتاتی ہے کہ جب نئی ریاست کی تشکیل ہورہی تھی تو ریاست کے بانی کے ذہن میں اس کا نقشہ کیا ہے؟وہ اسے کیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں؟ اقلیتوں کو اعتماد دلایا گیا کہ
“آپ آزاد ہیں” اپنے مندروں,مسجدوں , چرچ اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔”آپ سب سے پہلے پاکستانی ہیں ۔مگر پارلیمنٹ میں اس تقریر کو نصاب اور آئین کا حصہ بتانے کی ہمیشہ سے مخالفت کی گئی۔ اقلیت کہیں بھی ہوں سب سے مظلوم طبقہ ہے اور اس طبقے کی ترقی و بہتری کے لیے ریاست پاکستان کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔اقلیتوں کے حقوق کے لیے بنائے جانے والے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے، حقیقت یہی ہے اقلیتوں کے عالمی دن پر سکولوں کالجوں اور سرکاری اداروں میں اقلیتوں کی آزادی کی بات کر کے ہم ان سے بھدہ مذاق کرتے ہیں اور کچھ نہیں کیونکہ صرف اسی دن ہم ان کو پاکستانی سمجھتے ہیں ورنہ ہم انہیں دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔آج ملک میں تمام سرکاری ادارے بشمول آرمی فورسسز, پولیس, ریلوے اور سب سے زیادہ میڈیکل میں مسیحیوں کی کثیر تعداد کام کر کے ملک کا حصہ بن رہی ہے کیونکہ انہیں پتا ہے ہم پاکستانی ہیں۔ مگر پھر بھی یہ سب خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اقلیتوں کے مسائل کا حل صرف اقلیتوں کے مسائل پر بات کر کے ہی نکلے گا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے سماجی مسائل کے حل کے لیے ان سے تجاویز لے کر آئین کا حصہ بنائیں تاکہ وہ خود کو پاکستانی باحفاظت اور ملک کی دوڑ میں برابر کے شریک ہوں
یہاں اپنے قارئین کو یاد دلاتی چلوں کہ اسسٹنٹ کمشنر زینت حسین، جنہوں نے کہا تھا کہ بطور پاکستان کے شہری احمدی برادری کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے، لیکن اس کے بعد مذہبی تنظیمیں اے سی زینت کے دفتر پہنچ گئیں اور آخرکار انہیں معافی مانگنی پڑی۔جہاں اقلیتوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی سرد مہری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ حکومت اور پارلیمان سیاسی وابستگی سے بلند ہو کر اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں کام کریں۔ کیا شیخوپورہ میں چرچ پر حملہ، دارالحکومت میں شمشان گھاٹ کی تعمیر پر واویلا، گھوٹکی میں مندر پر حملہ۔ ان جیسے واقعات کیفہرست تو بہت طویل ہے۔ مگر اصل مقصد حقوق کی آواز بلند کرنا ہے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔لیکن پاکستان اقلیتوں کے حقوق کے لیے مستقل کی بجائے وقتی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، جن کا مقصد محض وقتی طور پر ملک کی شبیہہ بہتر کرنا ہوتا ہے نہ کہ مستقل طور پر اقلیتوں کو حقوق دلوانا۔ آخر میں اتنا کہنا چاہوں گی کہ اگر اقلیتی برادری پاکستان کے بانیان کا ساتھ نہ دیتی تو آج ہم آزاد نہ ہوتے اس لیے حکمرانوں کو چاہیئے کہ اقلیتوں کو انکے حقوق دیں تاکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کو تسکین پہنچے اور اقلیتوں کے چہرے پر مسکان سجی رہے۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-