رضوانہ تشدد کیس، ملزمہ صومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی گئی

جتنا میرا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے مجھے تو خودکشی کر لینی چاہیے، میں ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں، میڈیا پر باتیں بڑھا چڑھا کر بتائی جا رہی ہیں۔صومیا عاصم کی عدالت کے روبرو گفتگو

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ تشدد کیس کی سماعت ہوئی۔ سول جج عاصم کی اہلیہ صومیا عاصم کو ڈیوٹی مجسٹریٹ شائسہ کنڈی کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اسلام آباد پولیس کی جانب سے صومیا عاصم کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا۔ ملزمہ صومیا عاصم کو گزشتہ روز ضمانت خارج ہونے پر عدالت کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جج کی بیوی ملزمہ صومیا عاصم کمرہ عدالت میں رو پڑیں۔انہوں نے کہا کہ میرا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے مجھے تو خودکشی کر لینی چاہیے۔ صومیا عاصم نے کہا کہ مجھے گھر لے کر گئے ہیں، کیمرے لگے ہیں، فوٹیجز نکلوا لیں، مجھے وومن اسٹیشن رات 12 بجے لے کر گئے۔صومیا عاصم نے کہا کہ میں ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں۔
میرے ساتھ ایسا ظلم نہ کیا جائے، میری بھی اولاد ہے، میڈیا پر باتیں بڑھا چڑھا کر بتائی جا رہی ہیں۔

قبل ازیں سٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید نے 2صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔فیصلے کے مطابق رضوانہ کی طبی رپورٹ تشدد کے الزام کو سپورٹ کرتی ہے،بچی پر تشدد کرنے والا آلہ برآمد کرنا ضروری ہے،مقدمے میں سومیہ عاصم پر لگی دفعات ناقابل ضمانت ہیں۔
عدالت نے کہاکہ سومیہ عاصم متاثرہ بچی رضوانہ پر مسلط ہونے پر مقدمے میں نامزد ہوئی،ان پر متاثرہ بچی رضوانہ کو ٹارچر اور تشدد کرنے کا الزام ہے۔تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ضمانت قبل ازگرفتاری کے ریلیف کا دائرہ اختیار محدود ہے، ضمانت غیرمعمولی صورتحال میں دی جاسکتی ہے جو موجودہ مرحلے میں دکھائی نہیں دیتی۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے کہاکہ موجودہ صورتحال میں تفتیش میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں، ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت خارج کی جاتی ہے۔فیصلے میں تفتیشی افسر کو میرٹ پر سومیہ عاصم سے تفتیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پولیس نے عدالت سے ملزمہ صومیا عاصم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔عدالت نے استفسار کیا کہ خاتون کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق قانون کیا ہے؟۔پولیس نے بتایا کہ قتل میں ملوث ہو یا پھر ڈکیتی میں ملوث ہو تو ریمانڈ ہوتا ہے۔ تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔جج نے کہا کہ اس بات پر آپ کو جسمانی ریمانڈ نہیں دے سکتی۔
میڈیا میں کوریج مل رہی ہے۔

میں نے پاکستان کا قانون دیکھنا ہے کیا کہتا ہے۔ جب کہ ملزمہ صومیا عاصم نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ مجھے رات 11:30 تک ذہنی ٹارچر کیا گیا ہے۔ مجھے گھر لے گئے ہیں اس کے بعد ویمن تھانہ لے کر گئے۔جج شائستہ کنڈی نے ریمارکس دئیے کہ قانون خاتون ملزم کو صرف 2 مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کی اجازت دیتا ہے ۔ صرف اقدام قتل اور قتل کے مقدمات میں، قانون خاتون ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی اجازت دیتا ہے، پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے بچی کو دی جانے والی اجرت کے حوالے سے رسیدیں حاصل کرنی ہیں۔
وکیل صفائی نے کہا کہ ہمارے خلاف الزام ہے کہ بچی ہمارے پاس ملازمہ تھی، بچی ہمارے پاس ملازمہ تھی ہی نہیں، یہ الزام ہے۔جج شائستہ خان کنڈی نے کہا کہ آپ نے اگر ویڈیو ہی لینی ہے تو سیف سٹی سے ویڈیو لے لیں، میں آپ کو میڈیا ہائپ کی بنیاد پر تو جسمانی ریمانڈ نہیں دے سکتی۔صومیا عاصم نے روسٹرم پر آ کہا کہ میں ہر طرح کا تعاون کرنے کو تیار ہوں۔ میں ایک ماں ہوں، میرے تین بچے ہیں، اس طرح کا ٹارچر نہ کیا جائے۔میرے ساتھ ایسا ظلم نہ کیا جائے، میری بھی اولاد ہے، میڈیا پر باتیں بڑھا چڑھا کر بتائی جا رہی ہیں۔عدالت نے ملزمہ کا جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔