پٹواریوں کی کارستانیاں

دنیا کا کوئی بھی ملک جب کوئی ادارہ بناتا ہے تو اس کا بنیادی، قانونی، آئینی، جمہوری اور اخلاقی مقصد لوگوں کو خدمات فراہم کرنا ہوتا ہے اور کسی مہذب قوم کے مہذب محکمہ کا مہذب آفیسر یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اپنے لوگوں کی عزت نفس مجروح کرے اور محکمہ کے اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے طریقوں سے محکمہ کو چلائے جس کی بڑی واضح مثال ہمارے ملک کے ادارے ہیں جو لوگوں پر حکمرانی کرنے کے لئے بنائے گئے یا بن گئے ہیں۔ ہر ادارہ عوام الناس کواپنے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے ہے ۔پٹواری ایسی شخصیت ہے جس سے زمیندار تو کیا زمین بھی پناہ مانگتی ہے۔ پٹواری کی تین بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ہرکٹائی کے دوران اگائی گئی فصلوں کا ریکارڈ بنانا،

وراثتوں اور خریدوفروخت وغیرہ کے معاملات کے مطابق زمینوں کے مالکانہ حقوق کا ریکارڈ رکھنا، زمینی و فصلی اکاوئنٹ وغیرہ کا ریکارڈ رکھ کر ریٹرنز وغیرہ کا حساب رکھنا۔اس حاکمانہ اور مرکزی حیثیت نے پٹواریوں کا ان معاملات پر ایک طرح سے اجارہ قائم کر دیا جس سے انہیں زمین کے ریکارڈ سے متعلق معاملات میں اپنی مرضی کرنے اور دیہاتیوں سے رشوتیں وصول کرنے کے کھلے مواقع فراہم کیے اور یہی بات پٹواری کے نام سے جڑے منفی تاثر کا سبب بنی۔ شائد ان کے اختیارت کے باعث ہی دیہی علاقوں کی خواتین لوک گیتوںمیں انہیں موضوع بحث بناتی ہیں جیسے ،،دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا پٹواری دا،، ،،سدھ پٹواری نو جند تیرے ناں لاواں،،۔ یہی وجہ ہے کہ 9سکیل کاپٹواری اربوں روپے کی جائیداد و مال اور بنک بیلنسک کا مالک بن سکتا ہے۔ پٹواری حضرات نے اپنا علیحدہ پرائیویٹ نظام بنا رکھا ہے جس میں وہ اپنے نظام میں شامل لوگوں کے علاوہ کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے۔ جس میں پرائیویٹ بلڈنگ، اور غیر متعلقہ افراد پر مشتمل ذاتی عملہ رکھا ہوتا جن کو منشی کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہی منشی ان پٹواری حضرات کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے ہیں اور ہر جائز وناجائز کام ان کے ذریعے سرانجام دیا جاتاہے پٹواری حضرات کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ نے ایک بڑا واضح حکم دیا تھا لیکن پٹواری حضرات عدالت عالیہ کے حکم کی سرعام سنگین خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ تمام پٹواریوں نے نا تو اپنے پرائیویٹ دفاتر ختم کئے اور نہ ہی پرائیویٹ منشیوں کے ہاتھوں سے سرکاری ریکارڈ واپس لیا گیا ہے۔

حکومت کی جانب سے اراضی ریکارڈ سنٹر قائم کئے گئے اور تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کی کوشش کی گئی مگر کمپیوٹر ریکارڈ سنٹرز پر بھی پٹواریوں کے کرپٹ منشیوں نے ڈیرے جما رکھے ہیں اور ہرکام کے باہر ہی ریٹ طےکرکے کھلے عام رشوت وصول کی جاتی ہے۔ ایسے کرپٹ ٹائوٹوں کو مسلسل کمپیوٹر سنٹرز میں داخلے اور کام کرواتے ہوئے وہاں سکیورٹی کیمرہ جات میں باآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پٹواریوں نے فرد ملکیت کی اجراء ، نقول ، انتقالات، وراثت انتقال اور خسرہ جات و دیگر رپورٹس کے کھلے عام پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ سب رجسٹرار آفس سے منظور شدہ رجسٹریوں کی ایک بڑی تعداد ہے ۔ جن سے سرکاری فیس کی مد میں کروڑوں روپے وصول کیے جاچکے ہیں۔ مگر انتقالات کا اندراج نہیں کیا گیا۔

اس غفلت اور غیر قانونی اقدام سے عوام سے کروڑوں روپے کی جائیدادوں کا فراڈ ہوچکا ہے۔ حالانکہ قواعد کے مطابق 7سے 15یوم کے اندر منظور شدہ رجسٹریوں کا انتقال درج کرنا ضروری ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق متعدد پٹوارخانوں میں اینٹی کرپشن میں مقدمات کے ریکارڈ یافتہ پٹواریوں کے ہی بطور پٹواری کام کرنے کا انکشاف ہوا ہے، لیکن محکمہ کی جانب سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں جاتی۔