اسلام فوبیا روکنے کیلئے مذمت نہیں سپہ سلار چاہیے

موجودہ دور میں ہمیں کوئی بھی تنظیم اور کاغذی مذمت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے یورپ وہ بھوت ہے جو باتوں سے نہیں لاتوں سے مانے گا ہمیں ایک ماضی کی طرح سپہ سلار چاہیے جیسےاللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایسے بے شمار سپہ سالاروں سے نوازا جنھوں نے مختلف مواقع پر مسلمانوں کی بہت بڑی بڑی فتوحات سے ہمکنار کیا جن میں خالد بن ولید ؓ، محمد بن قاسم، طارق بن یزید، یوسف بن تاشفین اور امیر تیمور کے نام شامل ہیں۔ اسلامی لشکر کے یہ جانباز سپہ سالار میدانِ جنگ میں دشمن کے لیے موت اور اپنوں کے لیےامن و راحت کے پیامبر تھے۔ اسلام کے ان عظیم سپہ سالاروں نے اپنی منزل کا تعین کرتے ہوئے جب بھی قدم بڑھائے تو رفعت و عظمت کے پھول ان کے استقبال کے لیے بکھرتے چلے گئے ان میں ایک نام صلاح الدین ایوبی تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے اور ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔

صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193 ء میں دمشق میں انتقال کر گئے ، انہوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں یہ اسلام کے عظیم وہ سپہ سالار ہے جو اسلام کی خاط تنہا لڑے اور بیت المقدس کو فتح کیا دوسری طرف عصردورایک بین‌الاقوامی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطی، شمالی، مغربی اورجنوبی افریقا، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور برصغیر اور جنوبی امریکا کے 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ او آئی سی دنیا بھر کے 1.2 ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا کہ اس تنظیم نے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ اور مسائل کے حل کے سلسلے میں سوائے اجلاسوں کے کچھ نہیں کیا بس فرضی اجلاس, کاغذی مزاحمت کی حد تک ہے اس لئے اس وقت پوری دنیا میں عمومی طور پر اور مغربی ملکوں یوروپ وامریکہ میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا کی لہر شدیدسے شدیدتر ہوتی جارہی ہے، مسلمانوں کے ساتھ ناروا، بیجااور امتیازی سلوک نیز اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی مقدس شخصیات ومقامات کی توہین اور اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے واقعات اب مغرب میں آئے دن کے معمول بنتے جارہے ہیں، جیسا کہ بدھ کو سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر احتجاج کرنے والے 37 سالہ عراقی نژاد سویڈش شہری ملعون سلوان مومیکا نے پولیس سے قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کی اجازت مانگی تھی۔احتجاج سے پہلے مومیکا نے نیوز ایجنسی ٹی ٹی کو بتایا کہ وہ اس عمل سے ’آزادی اظہار‘ کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔

میں بطور مسلمان اس کے بیان کی مذمت کرتا ہوں کہ اظہار رائے اور احتجاج کی آزادی کے لبادے میں امتیازی سلوک، نفرت اور تشدد کے لیے اس طرح جان بوجھ کر مشتعل کرنے والے عمل کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔بین الاقوامی قانون کے تحت ریاستوں کا فرض ہے کہ وہ مذہبی منافرت کی کسی بھی کوشش کو روکیں جو تشدد کو بھڑکانے کا باعث بنتی ہیں۔ مغرب میں گذشتہ چند ماہ کے دوران اس طرح کے ’اسلامو فوبک‘ واقعات کا تسلسل سے پیش آنا نفرت انگیز اقدامات کی اجازت دینے والے قانونی فریم ورک پر سنگین سوال اٹھاتا ہے۔ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ آزادی اظہار اور رائے کا حق نفرت کو ہوا دینے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے کا لائسنس فراہم نہیں کرتا اور اس واقعے پر پاکستان کے تحفظات سویڈن حکام تک پہنچائے جا رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری حکومتوں پر بھی زور دیے کہ وہ زینوفوبیا، اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے قابل اعتماد اور ٹھوس اقدامات کریں۔جبکہ پاکستان میں سویڈن کے سفارت خانے کی جانب سے اپنی گورنمنٹ کا بیان ٹوئٹر پر پوسٹ کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سویڈش حکومت اسلاموفوبیا پر مبنی اس عمل کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔

سویڈش حکومت کا کہنا ہےکہ یہ واقعہ سویڈن کی حکومت کا موقف واضح نہیں کرتا ہے.دوسری جانب یورپی یونین نے ردعمل میں کہا ہے کہ واقعہ جارحانہ اور بے عزتی پر مبنی اشتعال انگیزی کا واضح عمل ہے، یہ عمل کسی بھی طرح یورپی یونین کی رائے کی عکاسی نہیں کرتا، نسل پرستی، نفرت انگیزی اور عدم برداشت کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔واقعے کے خلاف عالم اسلام سراپا احتجاج ہے اور دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، اسلامی تعاون تنظیم کی ایگزیکٹوکمیٹی نے آئندہ ہفتے ہنگامی اجلاس بلالیا ہے، اجلاس میں ضروری اقدامات سے متعلق اجتماعی موقف اپنایا جائےگا۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-