قاتل مہنگائی اور مرتے کرتے روزگار میں گزری عید

زندگی میں بہت سی عیدیں گزری ہیں مگر اس عید کا غم دل پر ٹھہر گیا ہے عید جو خوشی کا دن ہوتا ہے مگر یہ خوشی سے خالی عید تھی جب مسجد میں عید نماز پڑھنے گیا تو لوگوں کو پوشیدہ نظروں سے دیکھتا رہا اکثریت کے بدن پر پرانوں کپڑوں میں نئی حالت کے لباس تن زیب تھے عید کی نماز اور جنازے کی نماز میں ایک جیسی کیفیت کی خاموشی برپا تھی جونہی سلام پھرا دُعا ہوئی لوگ اُداس چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر جلدی سے بچھڑنے کے لیے گلے مل رہے تھے کئی تو فقط عید ملن رسم پوری کرتے ہی گھروں کی جانب تیز قدموں سے رواں ہو رہے تھے ان حالات میں جکڑے جتنے بھی چہرے تھے سب بچوں کے باپ یعنی گھروں کے سربراہ لوگ تھے میڈل کلاس سفید پوش لوگ جن کے بدن سے مہنگائی اور بے روزگاری مل کر چاروں ہاتھوں سے پردہ کھینچ رہی تھیں اور وہ منہ چھپائے عالم تنہائی میں جانے کو بھاگ رہے تھے جہاں ان کی اوقات کا بھرم بچ سکے۔صاف نظر آ رہا تھا لوگوں کا جینا مشکل ہوا پڑا ہے بس لاشیں نہیں بکھری پڑیں ورنہ لوگ تو مرے مرے پھر رہے ہیں ایسے حالات جس میں انسان خود اپنے آپ کو برداشت نہیں کر پا رہا عجیب قرب مسلط ہے اپنے آپ کے ساتھ رہنے میں بھی درد کا تسلسل تھم نہیں رہا یہ حالات کیوں ہیں اور اگر ہیں تو اس میں ہم ہی کیوں ہیں عالم ارواح میں ہماری روحوں سے ایسے کیا گناہ سرزد ہو گئے تھے کہ ہمیں اس ملک میں ایسے حالات میں اتارا جس کی آزادی کے لیے کیاہمارے بزرگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ اس لیے دیا تھا کہ ان کی نسلوں کی جان پر بنی رہے؟

ہر جانب صاحب حیثیت لوگ جانوروں کی اور غریب جذبات کی قربانی دے رہے تھے امیروں میں سے تو پھر بھی کوئی قربانی دینے سے غیر حاضر رہ گیا ہوگا مگر غریبوں کے جذبات کی قربانیاں ان کی مجبوریوں کی طرح اضافے کے ساتھ رب کے حضور اشکوں کی چھریوں تلے سے گزر کر پیش ہو رہی تھیں ان غریبوں نے اپنے بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر خدا سے سوال کیے ہیں کہ خدایا سب مسلمانوں کے لیے عید خوشی کا دن مقرر کیا ہے تو اسباب خوشی کے سامان صاحب اختیار کی تجوریوں میں کیوں رکھ دئیے اور محرومیوں کے دُکھ غریبوں کے دامن میں کیوں ڈال دئیے؟ ایسے میں جو عید کے دن بھی خوش نہیں رہ پاتے ان کو عید خوشی سے ناگزار نے پر حکم الہی توڑنے کی سزا ہوگی؟سمجھ نہیں آ رہی غریب ہونے کی سزا ہے یا پاکستانی غریب ہونے کی سزا ہے اس ملک میں غریبوں کے ساتھ ایسے حادثات ہو رہے ہیں جن کے نیل روح پر چھپے ہیں اور زخمی روح جسم کا مکان خالی کرنے کے بہانے تلاش کر رہی ہے مگر جسم کا زندگی کے ساتھ ہوا معاہدہ ابھی ختم نہیں ہوا اسی لیے روح ابھی چاہتے ہوئے بھی روانہ نہیں ہو سکتی عجیب عید ہے زلحج کا مہینہ ہے مگر محسوسات کا عالم دس محرم جیسا ہے جہاں غریبوں لاچاروں بے بسوں کے وجود دنیا کے میدان کربلا میں حسین ؑ کی طرح جنگ سے فرار نہیں ہوسکتے ہمت حق بن کر کھڑی ہے اور وقت کے یزید حکومت کے نشے میں مہنگائی بے روزگاری کے تیر برسانے پر لگے ہیں صبر ہے کہ پلک نہیں جھپک رہا اور خدا ہے کہ سارے تماشے دیکھتے ہوئے بھی خاموش ہے ایسے حالات میں خدا کو اپنے ساتھ سمجھتے ہوئے ظلم سے گزرتے رہنا کوئی آسان ایمان تو نہیں۔اے خدا تو ایسے کیوں نہیں نوازتا کہ آس اور امید کے ہاتھوں یقین کمزور ہونے سے بچا رہے؟

مشکلات میں جکڑی عوام شکوہ بھی کرئے تو سیاسی بتوں کے پجاری اور ہر مہینے اسی عوام کے ٹیکس سے محب وطنی کی تنخواہ لینے والے حکومت سے غداری کی سزائیں دینے لگتے ہیں اصلاح و ہمدردی کے تناظر میں بولنے والوں نے زمانے کی زبانوں سے زہن رخمی کروانے کی بجائے چپ سادھ رکھی ہے مگر میں نے خاموش چہروں کے پیچھے چیختے دل سنے ہیں اور شاید مجھے سنائی بھی اس لیے دیتے ہیں کہ میں کسی سیاسی و سرکاری بت کا پیروکارنہیں بلکہ میں انسانیت کی جماعت کا نمائندہ ہوں ملاوٹ سے پاک سچ لکھنے والا لکھاری ہوں میرے قلم کی سیاہی درد کی دوات میں رکھی گئی ہے۔میں وسائل سے محروم غریبوں کے درد سے آشنا ہوں اور میں غریبوں کی اُس جماعت اُمت سے ہوں جس کے سردار نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں غریبوں میں سے ہوں اور غریب مجھ میں سے ہیں پھر مجھے کسی صاحب حیثیت کی ترجمانی کیونکر زیب دے گئی میں وسائل پر قابل لوگوں کے سینوں میں پڑے پتھروں کو دل بنانے کی بجائے مرجھائے ہوئے حقیقی دلوں پر گزرنے والے حالات خدا کی بارگاہ میں دہائی بنا کر پیش کرنے پر گامزن ہوں کہ میرا یقین کہتا ہے جب بلندی سے اشارہ ہوجائے تو پستی میں وہ ہلچل نمودار ہو سکتی ہے جو ظالموں کو قدرت کے احتساب میں لا کھڑا کرتی ہے۔خدا کا عرش گواہی دے گا اب عید پر جانوروں سے زیادہ جذبات و احساسات کی قربانیاں پہنچتی ہیں جو قبولیت کے انتظار میں کھڑی ہیں کہ خد ا اب فیصلہ دے دے کہ غریبوں کے لیے آسمان سے اترنے والا رزق انسانی شکل کی جن خاردار جھاڑیوں میں پھنستا ہے اسے جہنم کی آگ سے کب ختم کیا جائیگا۔میں کس کس منظر کی نشاندہی کروں کہ مجھے لوگوں کے دُکھ اپنی کیفیت کے حصار میں لے لیتے ہیں میرے حلق سے روٹی کے لقمے نہیں اتر رہے تھے جب میں نے یہ منظر دیکھا کہ سفید پوش گھرانوں کی عورتیں گھروں سے اپنے بچوں کو یہ بتا کر نکلتی ہیں کہ وہ سبزی و راشن لینے جا رہی ہیں اور بازار میں آ کر ڈوپٹہ بدل کر چہرہ ڈھانپ کر کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے بھیک مانگتی ہیں

ایک تو خدا کے علاوہ کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلا نا اک ازیت کا نام ہے اور ایسے میں جب کوئی دوکاندار مدد کرنے سے پہلے حوس کی نظروں سے ان کے جسموں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ رو پڑتی ہیں خدایا اک تو عزت نفس پیٹ کی بھوک نے چھین لی اور دوسرا تن من کی عزت کے بھی لوگ شکاری ہیں یہ مجبوریوں کے ہاتھوں لٹے ایمان والے لوگوں پر اگر خودکشی حرام نہ رکھی جاتی تو ہر جانب اموات کی کثرت حکمرانوں کو بتاتی کہ کتنی لاشوں پر ان کے اقتدار کی کرسیاں رکھی ہوئی ہیں یہ جو ترقی کے نام پر عوام کی نسلوں کو سودی قرضوں کی قبروں میں اتارئے ہوئے ہیں ان کی محب وطنی عوام غداری کے بنا پروان ہی نہیں چڑھتی ورنہ یہ انسانوں کے وسائل ضبط کرنے کی بجائے ایجادات سے بھی مسائل حل کر سکتے تھے میں بڑی شدت سے یہ سوچتا ہوں کہ سودی قرضوں سے عوام گروی رکھ کر زمینی ترقی کرنا کس قابلیت کا نام ہے یہ تو نالائق لوگوں کا فن ہے جبکہ قابل اور ایماندار لوگ تو قدرت کے عطا کردہ زمینی خزانوں سے عوامی اور ملکی حسن کا سبب بنتے ہیں یہ ملک ہمارا ہے مگر اس میں کئی اثاثے اس ملک کے نہیں یہ وطن فروشی سودی قرضوں کا کیا گیا وہ سودا ہے جس نے حلال سے حاصل ہونے والے عزت و سکون ہمیشہ کے لیے ختم کرکے رکھ دئیے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سود جیسی لعنت سے پروان چڑھانے والے حکمرانوں نے خدا سے اعلان جنگ کرکے اقتدار کی حوس میں آسمان کی جانب جو تیر برسائے ہیں ان کا ابھی تک خدا جواب کیوں نہیں دے رہا اب خدائی خاموشی نے میرے اندر چیخیں برپا کی ہوئی ہیں خدایا تو نے جیسے قوم لوط کے مجرموں پر برسائے جانے والے پتھروں پر ان کا نام لکھ کر ان کی جانب روانہ کیا تھا آج وہ منظر پھر دوہرا دے بے شک تیری پکڑ ظالم ومظلوم میں پہچان رکھتی ہے

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-