دنیا کی بناوٹ کو اس کے وجود کے اعتبار سے دیکھتا ہوں تو زمین پر ہوئی ساری کی ساری تخلیق قدرت کی مصوری کا پتا دیتی ہے اور خدا کو جاننے کے تناظر میں یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ خدا کاسب سے پسندیدہ مشغلہ تخلیق ہی رہا ہے اور ہر تخلیق اپنی ابتدا سے ہی اپنے حسن پر برقرار کھڑی ہے اور زمین کا سارا انتظام انسانی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا ہوا ہے تو یہ جو پانی پہ زمین کا تخت انسان کے لیے سجایا گیا ہے اس پہ دنیا نام کی کیا حقیقت ہے جس کو اس کے بنانے والے نے بھی برائیوں فتنوں خرابیوں حقیر اور ناجانے کیا کیا ناپسندیدہ القاب سے پکارا بتایا سمجھایا ہے تبھی تو خدا کے محبوب بندوں نے دنیا کبھی دنیا بنانے والے سے بھی نہیں مانگی۔ میں بہت غور و فکر اور ذاتی زندگی کے تجربے سے جس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دنیا نام کی ساری خرابیوں کو جمع کرکے اسے کوئی نام دیا جائے تو وہ مال و دولت ہی ہوگا جس سے دنیا کے سارے فتنے رونما ہوتے ہیں ویسے تو ایمان والوں کے لیے دولت کے علاوہ بھی کئی صورتوں کو فتنے کا نام دیا گیا ہے مگر جس نے سب سے زیادہ سکون انسانی برباد کیا وہ مال ہی ہے جسکی غیرموجودگی نے اچھوں کو برا کر دیکھایا اورموجودگی نے بروں کو اچھا بنا کر پیش کیا۔ اصل میں دنیا ہی ہے مال کا نام جس کی حوس ایمان ہی کیا پورے کے پورے انسان کو ہی کھا جاتی ہے تبھی یہ انسان نگلنے والی بلا سے نفرت کے تناظر میں خدا اور خدا کے بندوں کے سخت اقوال خوب وضاحت کرتے ہیں حدیث مبارکہ ہے کہ دنیا مردار ہے اور اس کا طالب کتا ہے قول علی ؓہے کہ دنیا میرے نزدیک ایسے ہے جیسے سور کی انتڑیاں جو کوڑھے کے ہاتھوں میں ہو۔
جس انسان کی جائز ضرورتوں کو اس کے لیے آسان رکھ کر اسے مال کی حوس سے آزاد کردیا گیا اُس کی غربت بھی بادشاہی کا اک روپ ہے اور جیسے ضرورتوں سے زیادہ ما ل دے کرمزید مال کی حوس میں جکڑ دیا گیا اس شخض کی اپنی قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے میں نے لاکھوں کرڑوں کے ایسے کئی مالک دیکھے ہیں جن کے پاس مال تو ہے مگر خود دوکوڑی کے بھی نہیں ہوتے ان بے قیمت لوگوں کو پا کر میں سوچتا تھا دنیا جتنی خود گری ہوئی ہے اس کا انتخاب خود سے زیادہ گرے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں یعنی دنیا اُنہی کے پاس جاتی ہے جو دنیا کے مزاج کے ہوتے ہیں خوش قسمت ہیں وہ روحیں جنہیں دنیا راس ہی نہیں آتی اور وہ دنیاوی نظام کو ٹھکرا کر آسمانی دنیا کے دھیان میں رہتے ہیں جنہیں لوگوں نے غربت کی نفرت میں ددھکار دیا وہی لوگ آسمان والے کے لاڈلے ٹھہرے ہیں۔ دنیا کی مشکلیں صبر کرنے والوں کے لیے اگلے جہان کی آسانیاں ہیں مگر میں ایمان و انسان کے سارے رشتے کھا جانے والی دولت نامی بلا کی اتنی اہمیت کیوں بنائی پر مبنی سوال بارگاہ خداوندی میں کرتا تو جواب آتاکہ ایمان صورت حسینی میں جتنی نایاب و پاکیزہ دولت ہے اسے آزمانے کے لیے یزیدی دنیا ہی درکار تھی اپنے اردگرد کی دنیا دیکھئے مال کے چکر میں ایمان کی بدصورتی کی نمائش لگا کر بیٹھی ہے دولت دنیا نے انسان کے ہاتھوں ہی انسان کو بے قیمت بنا کر رکھا دیا انسانیت کی جگہ کثرت مال دیکھ کر عزت و اہمیت دی جاتی ہے جبکہ یہ عزت و اہمیت دولت کی طرح جھوٹ کی وہ تصویر ہے جیسے مفاد کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے۔
کثرت زر کی حوس میں ڈوبی بدبودار رُوحیں حقوق کی زمین پہ فساد کی جڑ ہیں ان کی زندگی کا واحد اصول۔ پیسا ہو چاہے جیسا ہو۔ یہ قدرت کی طرف سے رکھا گیا حلال بھی اپنی حوس زدہ سوچ سے حرام بنا کر برکت کی توہین کے گنگار لوگ ہیں اسلامی معاشرے کا سب سے بھیانک چہرہ اُن لوگوں کا ہے جواسلامی حیلے میں دنیا جمع کرنے کے لیے اخلاقی شرعی قانون کی حرمت پامال کرتے ہیں مذہب کا لبادہ اُوڑھ کر شرافت کا ڈھونگ کرتے ہیں جبکہ ان کی شرافت شر اور آفت کا مجموعہ ہوتی ہے میں نے پانچ وقت کے حرام خور نمازی بھی دیکھے ہیں جو نہ نماز چھوڑتے ہیں نہ حرام چھوڑتے ہیں ان کی عبادت عبادت نہیں عادت ہے جو ان کی اندر کی حرام حوس کو مارنے پربے اثر رہتی ہے ان پر بات کی جائے تو یہ اپنے بدکردار کی نشاندہی کوتوہین مذہب سے جوڑ کر اللہ کے بدمعاش بن جاتے ہیں دنیا کے عاشق دنیا کے حیلے میں ہی کماؤ دین کا لبادہ اُوڑھنا ہے تو دین کوکردار میں اپناؤ خریدا ہوا مال واپس اور تبدیل کرنے کے ساتھ شرعی منافع رکھوکیا یہ غرض مال دنیا کی منافقت نہیں کہ خریدتے وقت عیب نکالیں جائیں اور وہی چیز فروخت کرتے ہوئے تعریفیں بیان کی جائیں
اپنی دکانوں کے باہر لوگوں کا راستہ کرایے پر دینے والوں کو اس حدیث پر ایمان کیوں نہیں کہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے راستے کی جگہ پہ تو نمازتک نہیں ہوتی جب …..
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں.