فلسطین کا مستقبل

فرعون، ہلاکو، نمرود اور شداد کا تذکرہ ہم بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ نیتن یاہو تو فرعونیت، ہلاکویت، نمرودیت اور شدادیت سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ کہاں لنکا سے بصرہ جانے والے بحری جہاز کو قزاقوں نے لوٹ لیا تو ایک عورت کی چیخ پر محمد بن قاسم سندھ پہنچ گیا تھا۔ فلکِ پیر اب عرب خواتین، بچوں اور دیگر مظلوم مسلمانوں کی چیخیں بھی سن رہا ہے اور ان کی بے بسی اور مظلومیت کا نظارہ بھی کر رہا ہے لیکن مٹھی بھر اسلامی تنظیموں اور غریب یمنی ابابیلوں کے سوا کوئی اتنی جرأت اور ہمت نہیں رکھتا کہ مظلوموں، غریبوں، بے بسوں اور معصوموں کی حمایت میں سپرپاور امریکہ اور ظالم اسرائیل کے سامنے کھڑا ہو جائے اسرائیل نے گزشتہ چند سالوں نے جتنی تباہی غزہ میں مچائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس شہر کو مکمل کھنڈر بنا دیا گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ غزہ میں زندگی اذیت ناک ہے، غزہ کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، لاکھوں فلسطینی خیموں یا بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کس کی پشت پناہی کے باعث فلسطینیوں کو بے دردی سے شہید کر رہا ہے جسے روکنے والا کوئی نہیں ہے، دراصل اسرائیل سے امریکا ایک بڑی قوت ہے جس کے پاس وسائل بھی اور اثر و رسوخ بھی جسے وہ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو بچا لیتا ہے، اگر سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کی بات کی جائے تو وہاں بھی امریکا اسے ویٹو کردیتا ہے۔ جب بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت کچھ ملکوں کو بلاجواز تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے جنھیں درست کرنا آسان نہیں ہوتا، بہر حال امریکہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ ایک صدی سے یہ سب کرتا آرہا ہے اور تاحال یہ عمل جاری ہے۔ اسرائیل کے اردگرد کمزور ممالک ڈبلیو ٹی او کے تحت اپنی گردنیں امریکی انگوٹھے اور انگلیوں کے کڑے کے لئے پیش کرتے ہیں۔یہ ممالک امریکہ کو اسی طرح اپنا خیرخواہ سمجھتے ہیں جیسے غلام شاہ کلھوڑو نے انگریزوں کو سمجھ لیا تھا، لیکن اب تو ظلم کی انتہا ہو چکی ہے، آج اگر مسلم ممالک متحد ہو کر فلسطین کو صرف ایک دھمکی ہی لگا دیں تو یقین کریں وہ دوسرا قدم نہیں اٹھائے گا۔ آج مسلم حکمرانوں کو متحد ہو کر یک قلب و یک جان ہو کر فلسطین کے مظلوموں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ خدا کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آئے، مسلم حکمرانوں کو متحد اور یک زبان ہو کر فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہئے، ورنہ انجام ہمارا بھی دور نہیں ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دنیا کا ایک ایسا نقشہ پیش کیا تھا جس میں فلسطین کا کوئی وجود نہیں دکھایا گیا، اس میں ان کے ارادے کو ظاہر کیا گیا ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے عزائم کچھ اچھے نظر نہیں آرہے، صدر ٹرمپ نے آتے ہی جہاں اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کردی ہے وہیں یہ اعلان بھی کردیا کہ غزہ ایک جدید ترین بین الاقوامی سطح کا شہر ہوگا جہاں آنے والے اسرائیل کے خوابوں کی تکمیل کریں گے،امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ کی سرزمین کو’ ریئل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سوسائٹی’ سمجھ رکھا ہے۔ عالمی قوانین امریکا کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ غزہ کے باسیوں کو بے گھر کر دیا جائے۔ جس طرح برطانیہ نے 1948میں اسرائیل کے یہودیوں کو فلسطینیوں کی سرزمین پر بسایا تھا۔ امریکا کے صدر ٹرمپ بھی اسی طرح غزہ کو ایک کالونی کی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کو بھی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ صدرِ ٹرمپ نے وہ امریکی امداد بھی بند کر دی ہے جو دنیا کے پسماندہ ممالک کے دکھی اور مجبور انسانوں کی فلاح کے لیے استعمال کی جارہی تھی ۔یوں امریکا کی حالیہ پالیسی اسرائیل کے حق میں جارہی ہے۔

غزہ کا ممکنہ مستقبل کئی عوامل پر منحصر ہے، جن میں سیاسی، عسکری، معاشی اور انسانی صورتحال شامل ہے، اگر اسرائیل اپنی حالیہ جارحیت جاری رکھتا ہے تو وہ غزہ پر مکمل قبضہ کر سکتا ہے، جس کے بعد یا تو براہ راست اسرائیلی انتظام نافذ ہوگا یا کوئی کٹھ پتلی حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ تاہم، اس صورت میں فلسطینی مزاحمت برقرار رہ سکتی ہے، اور عالمی سطح پر شدید ردعمل آ سکتا ہے، اگر عالمی دباؤ بڑھتا ہے تو ایک ممکنہ حل یہ ہو سکتا ہے کہ غزہ کو کسی بین الاقوامی امن فورس کے تحت دے دیا جائے، جس میں عرب ممالک، اقوام متحدہ یا دیگر فریق شامل ہوں۔ اس سے انسانی بحران میں کمی آ سکتی ہے، مگر فلسطینی عوام کے مکمل حقوق کی بحالی کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔

فلسطنیوں کے لیے مستقبل میں لڑائی جاری رکھنا بہت مشکل ہے۔ لڑائی میں فلسطنیوں کا جانی و مالی نقصان حد سے زیادہ ہوا ہے، گزشتہ 15 مہینوں میں سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی بھی اس قابل نہیں کہ وہ حماس کو راضی کرسکے یا غزہ کا کنٹرول سنبھال لے۔ بین الاقوامی امن دستوں کی تعیناتی پر بات چیت ہوسکتی ہے، اس مقصد کے لیے بھی فلسطینی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات اور امریکا دیگر ممالک کو آمادہ کرنا پڑے گا۔ حماس کے بہت سے تربیت یافتہ جنگجو مارے جا چکے ہیں، اگر جنگ جاری رہتی ہے تو اس کا مزید نقصان ہوسکتا ہے۔عالمی انصاف، پرامن بقائے باہمی اور ہم آہنگی ناگزیر ہے، اگر مصر، سعودی عرب، قطر اور دیگر عرب ممالک کوئی مضبوط موقف اختیار کرتے ہیں تو وہ کسی سفارتی حل کے ذریعے غزہ کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ فلسطینی عوام کے لیے بہتر ہو سکتا ہے، مگر اس کا انحصار اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے ردعمل پر ہو سکتا ہے۔ غزہ کا مستقبل کئی عالمی اور علاقائی عناصر سے جڑا ہوا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ فلسطینی اسٹیک ہولڈرز سب سے پہلے متحد ہوجائیں، اس کے بعد عرب ممالک کے لیے کسی ایک حل پر متفق ہونا آسان ہوجائے گا-

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-