پنجاب پولیس کا دونوں کو کچے کے ڈاکؤوں سے بازیاب کرانے کا دعویٰ
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) صحافی احمد نورانی کے دونوں مغوی بھائی محمد علی اور سیف الرحمان حیدر گھر پہنچ گئے۔ تفصیلات کے مطابق صحافی احمد نورانی کے دونوں مغوی بھائی گھر پہنچ گئے ہیں، دونوں بھائی محمد علی اور سیف الرحمان حیدر اسلام آباد میں اپنے گھر پہنچے ہیں، دونوں بھائی ایک ماہ سے زائد عرصے سے لاپتہ تھے، پنجاب پولیس نے دونوں بھائیوں کو کچے کے ڈاکؤوں سے بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا۔
اس حوالے سے رحیم یارخان پولیس حکام نے بتایا کہ پولیس کا کچہ ماچھکہ میں دوران گشت ڈاکوؤں سے مقابلہ ہوا اس دوران 02 مغوی بازیاب ہوئے ، یہ مغوی احمد نورانی کے 2 بھائی ہیں جنہیں ان کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا، دوران ِکاروائی 02 ڈاکوؤں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں تاہم اغواء کار دونوں مغویوں کو چھوڑ کر کچے کے علاقے میں فرار ہوگئے، بازیاب مغویوں کی شناخت محمد علی اور سیف الرحمن حیدر پسران بشیر احمد سعیدی کے نام سے ہوئی ، بازیاب ہونے والے افراد کاتعلق اسلام آباد سے ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ 15 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ صحافی احمد نورانی کے دو بھائیوں کی بازیابی درخواست پر سماعت ہوئی تھی جہاں جسٹس انعام امین منہاس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ ’آپ نے کہا تھا پنجاب رحیم یار خان میں کوئی ایکٹیوٹی ملی ہے‘، آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ ’ہم نے تھانہ نون میں اغوا کا مقدمہ درج کرلیا ہے، اس میں مختلف صوبے شامل ہو گئے اس لیے سپیشل انویسٹیگشن ٹیم بنانے کے لیے لکھا ہے، پنجاب پولیس کے چار افسران ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں جو تفصیلات فراہم کر رہے ہیں، پنجاب پولیس سے ہمیں معاونت ملی رہی ہے‘۔
اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ ’آپ نے کال ڈیٹا سے متعلق بتایا تھا اس کا کیا ہوا؟، رپورٹ میں آپ کیا کہتے ہیں پیشرفت کیا ہے؟‘، آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ ’ہم نے جے آئی ٹی تشکیل دی اور ایک اور ٹیم بھی بنائی ہے، پنجاب سندھ مختلف جیلوں سے ہیلتھ سنٹرز رپورٹس آنا تھیں وہ تمام رپورٹ آچکیں ہیں، پنجاب بلوچستان اور سندھ سے رپورٹس آئیں ہیں وہ کہیں بھی نہیں ہیں‘، جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ ’رپورٹس رپورٹس نہیں میں نے کہا تھا کنکریٹ رپورٹ بتائیں‘۔
آئی جی اسلام آباد نے دوران سماعت بتایا کہ ’14 اپریل کو ہماری ٹیم بنی، جے آئی ٹی تشکیل کے لئے وزارت داخلہ کو لکھ دیا ہے، دو صوبوں کی اتھارٹیز ہمارے ساتھ کوآرڈینیشن میں ہیں‘، اس پر ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے نقطہ اٹھایا کہ ’ 28 دن ہو چکے ہیں سماعت سے ایک دن قبل یہ ایف آئی آر کاٹ لے کر آئے ہیں، پولیس اغوا کاروں کی مکمل سہولت کاری کر رہی ہے‘، اسی طرح ایڈوکیٹ ہادی علی چٹھہ نے مؤقف اپنایا کہ ’22 اے ہماری درخواست میں ہفتہ کے روز انہوں نے کہا پولیس پی ایس ایل سیکورٹی میں مصروف ہے‘۔
جسٹس انعام امین منہاس نے پولیس حکام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے ایف آئی آر دے دی میں اس کو نمٹا نہیں رہا ہوں، ابھی تک سوائے رحیم یار خان کے موبائل ایکٹیویٹی کے علاوہ آپ نے کچھ نہیں بتایا، آپ تو موبائل بند بھی ہو اس تک رسائی کر سکتے ہیں‘، اس موقع پر عدالت نے ایڈوکیٹ ایمان مزاری سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ کے پاس کوئی معلومات ہے؟‘ ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے جواب دیا کہ ’انہوں نے سی سی ٹی فوٹیج اپنے قبضے میں لے لی، انہوں نے ہمسائیوں کو ڈرایا دھمکایا ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج فیملی کو نہیں دینی‘۔
جسٹس انعام امین منہاس نے آئی جی پولیس سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’اب ایف آئی آر درج پو چکی ہے آپ یہ ساری معلومات پولیس کو دے سکتے ہیں، میں ایف آئی آر کی بنیاد پر اس کو نمٹا نہیں رہا ہوں، اگر اسلام آباد نہ ہوتا چیچو کی ملیاں میں ہوتا تو پھر کہتا، یہ اسلام آباد میں واقعہ ہوا ہے آپ کیا کر رہے ہیں؟‘، اس موقع پر ایڈوکیٹ ایمان مزاری نے کہا کہ ’ہم عدالت سے استدعا کر رہے ہیں لاپتہ بھائیوں کی بازیابی کرا کے عدالت پیش کرنے کا حکم دیا جائے، ان کو پتا ہے وزارت دفاع کو بلا لیں یا سیکٹر کمانڈر کو بلا لیں، عدالت اوپن کورٹ میں تاریخ دے دے‘ جس پر جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ ’میں رپورٹس پڑھوں گا پھر تاریخ دے دوں گا‘۔
ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے ایک بار پھر استدعا کی کہ ’دونوں بھائیوں کو بازیاب کرا کر عدالت پیش کرنے کا حکم دیا جائے، پچھلی سماعت پر بھی آرڈر میں دونوں بھائیوں کو بازیاب کرا کے پیش کرنے کا آرڈر نہیں تھا‘، جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ ’جب ان کے حوالے سے معلوم ہو جائے پھر پروڈکشن آرڈر ہوتے ہیں‘، اس موقع پر دو لاپتہ بھائیوں کی والدہ نے عدالت کے سامنے جذباتی گفتگو میں کہا کہ ’میرے دو بچے ایک 30 سال اور 38 سال کے ہیں، اس کیس کو اس طرح ہینڈل کیا جا رہا ہے جیسے دونوں بلی کے بچے تھے ان کا کوئی والی وارث نہیں، اگر کسی بڑے کے یہ بچے ہوتے تو پھر پتہ چلتا، یہ کورٹ ہی نہیں ہونی چاہیے سب مزاق دنیا کے لئے بنایا ہوا ہے‘، اس پر جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم بیٹھے ہوئے ہیں رپورٹ آنے دیں‘، بعد ازاں سماعت ملتوی کردی گئی۔