یہ ملک بظاہر جمہوری ہے، وردی والے بھی طاقتور ہیں، مگر ایک طبقہ ایسا ہے جو نہ وردی پہنتا ہے، نہ ووٹ مانگتا ہے، نہ نیوز کانفرنس کرتا ہے، نہ لانگ مارچ لیکن اقتدار کے ریشمی پردوں کے پیچھے ہمیشہ موجود رہتا ہے: نام ہے بیوروکریسی۔ آپ اسے سول سروس کہیں، انتظامیہ کہیں، یا نوکر شاہی یہ وہ طبقہ ہے جو ہر حکومت کے آنے سے پہلے جانتا ہے کہ کس کی حکومت آ رہی ہے، اور ہر جانے والی حکومت کو سب سے پہلے ’مشورہ‘ دیتا ہے کہ وہ وقت پر رخصت ہو جائے۔
بیوروکریٹ کی ڈکشنری میں “عوام” ایک ایسا ہجوم ہے جسے قابو میں رکھنا ہوتا ہے، جسے لمبی قطاروں میں کھڑا رکھ کر ریونیو بڑھانا ہوتا ہے، جسے فائل نمبر دے کر گم کیا جا سکتا ہے، اور جس کی شکایت سننا افسر کی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ کسی عام پاکستانی کو زمین کا ریکارڈ چاہیے ہو، یا نکاح نامے کی تصدیق، یا پنشن کی منظوری — ہر جگہ بابو کا قلم درمیان میں حائل ہوتا ہے۔ وہی قلم جو تیز ہو تو سڑکیں بنتی ہیں، اور سویا ہو تو نسلیں خوار ہوتی ہیں۔ جو سر جھکائے، وہ ’پروجیکٹ‘ — جو سوال کرے، وہ ’مسئلہ‘
بیوروکریسی کا کمال یہ ہے کہ یہ ہر دور میں اقتدار کے رنگ میں خود کو ڈھال لیتی ہے۔ اگر مارشل لا ہو تو یہ آئینی تحفظات بھول کر فوجی آمر کے حکم پر سب کچھ ’پراسس‘ کر دیتی ہے۔ اگر جمہوری حکومت ہو، تو سیاستدان کو دھیمی آواز میں یاد دلاتی ہے: “صاحب، نظام ہمیں چلانا آتا ہے، آپ تو بس جلسے کریں۔” جیسے جیسے حکومتیں بدلتی ہیں، بیوروکریسی کے بابو بھی اپنا رنگ بدلتے ہیں۔ ان کا نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے، نہ کوئی سیاسی وابستگی — صرف کرسی، فائل، اور دستخط کے نیچے اسٹامپ۔
پاکستان میں سب سے طاقتور شے نہ آئین ہے، نہ عدلیہ — بلکہ ایک سرکاری فائل ہے۔ یہ فائل جب تک کسی دراز میں پڑی رہے، اس وقت تک کسی اسکول کی تعمیر نہیں ہو سکتی، کسی پنشنر کو پیسے نہیں مل سکتے، اور کسی سڑک پر تارکول نہیں بچھ سکتا۔ فائل کا سفر ایک عام کلرک سے شروع ہوتا ہے، پھر اسسٹنٹ، پھر سپرنٹنڈنٹ، پھر سیکشن آفیسر، پھر ڈپٹی سیکرٹری، اور آخر میں سیکریٹری۔ اور ہر ایک کی نظر میں اس فائل میں کوئی ’کمی‘ ضرور ہوتی ہے۔ اور اگر فائل کسی غریب کی ہو، تو اس میں “فنڈز کی کمی”، “پالیسی کا انتظار”، یا “اعلیٰ ہدایات” جیسا جملہ شامل ہو جاتا ہے۔
سیاستدان آتا جاتا ہے، بابو رہتا ہے یہی وہ حقیقت ہے جس سے عوام واقف نہیں۔ سیاستدان پانچ سال کے لیے آتا ہے، غلطی کرے تو ٹی وی پر ذلیل ہوتا ہے، مگر بیوروکریٹ دس بیس سالوں تک پالیسیاں بناتا ہے، نوکری کے آخر میں کوئی ادارہ سنبھالتا ہے، یا کسی عالمی ادارے کا ’ایڈوائزر‘ بن جاتا ہے۔ہر حکومت بیوروکریسی پر انحصار کرتی ہے، مگر جب حکومت جاتی ہے تو بیوروکریسی ’غلط مشورے دینے والے بابو‘ کے بجائے ’پروفیشنل افسر‘ بن کر نئے وزیر کے سامنے حاضری دیتا ہے، اور پرانی فائلیں کسی پرانی دراز میں رکھ دیتا ہے۔
بیوروکریسی اتنی طاقتور کیوں ہے؟ اس کا ایک جواب ہے: اختیار اور بے احتسابی کا امتزاج۔ اس میں وردی والے کی طرح براہِ راست طاقت نہیں، لیکن اس سے زیادہ گہری طاقت ہے: “کاغذی طاقت”۔ کوئی نوٹیفکیشن جاری ہو جائے، کوئی اسکیم ملتوی ہو جائے، کوئی رپورٹ دبا دی جائے — یہ سب صرف بیوروکریسی کی مرضی سے ہوتا ہے۔ ان کے لیے کوئی میڈیا ٹرائل نہیں، نہ نیب کی پیشیاں، نہ جے آئی ٹی۔ اگر کوئی کرپشن کا الزام لگ جائے، تو تبادلہ، اگر کوئی اسکینڈل نکل آئے تو ’او ایس ڈی‘، اور کچھ دن بعد نئی پوسٹنگ۔کئی سابق افسران نوکری کے بعد ایسی ہاؤسنگ سوسائٹیاں چلاتے ہیں جن کے نقشے انہوں نے خود بطور سیکریٹری منظور کیے تھے۔ بعض سفارتخانوں میں کنسلٹنٹ بن جاتے ہیں، تو کچھ عالمی این جی اوز کے پراجیکٹس میں لاکھوں کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ بیوروکریسی کا بابو کسی بھی مارشل لا، کسی بھی جمہوریت، اور کسی بھی بحران سے بچ کر نکل جاتا ہے — اور آخر میں کہتا ہے:
“ہم نے صرف کام کیا، فیصلے تو اوپر سے آئے تھے۔” صوبائی بیوروکریسی کا اپنا بادشاہت نما نظام وفاقی سطح پر جو کچھ ہوتا ہے، اس کی کاپی صوبائی بیوروکریسی میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ ہر ضلع میں ڈی سی، اے سی، چیف آفیسر، اور تحصیل دار وہی کردار ادا کرتے ہیں جو اسلام آباد میں سیکریٹریز کرتے ہیں۔لوکل گورنمنٹ کا نظام جب جب مضبوط ہوا، بیوروکریسی نے اسے ’غیر عملی‘ قرار دے کر فارغ کر دیا۔ کیونکہ اگر ناظم آ جائے، تو اے سی کو جواب دینا پڑے گا، اور بیوروکریٹ کبھی جواب دینے کے لیے نہیں، صرف حکم دینے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔
اگر واقعی تبدیلی لانی ہے، تو بیوروکریسی کی بھرتی، تربیت، پروموشن، اور احتساب کے نظام کو شفاف بنانا ہوگا۔ ہر افسر کی کارکردگی عوامی رائے، خود احتسابی اور شفاف رپورٹنگ سے جڑی ہونی چاہیے۔عام آدمی کے لیے اگر کسی دفتر میں جانا عزت کا باعث بنے، رشوت کی ضرورت نہ ہو، اور افسر دروازے پر ملے — تو سمجھو بیوروکریسی بدل رہی ہے۔اصل حکومت وہی ہے جو نظر نہ آئے، مگر سب پر حاوی ہو، بیوروکریسی کی طاقت وردی سے زیادہ گہری ہے، کیونکہ یہ دستخط سے نظام چلاتی ہے۔ اگر ہم نے بیوروکریسی کو عوامی خدمت کی راہ پر نہ ڈالا، تو نظام ہمیشہ چلے گا — مگر صرف فائلوں میں، زمینی حقیقت میں نہیں۔
جمہوریت صرف ووٹ سے نہیں، اداروں کے اندر سے بھی جنم لیتی ہے۔ اور جب تک بیوروکریٹ عوام کو مالک ماننے کے بجائے ان پر حکمرانی کا حق سمجھتا رہے گا، تب تک پاکستان میں “بابو کریسی” ختم نہیں، بلکہ مزید منظم ہوتی جائے گی
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-