دُنیا کا مشکل ترین محاذ(سیاچن)اورشہدائے گیاری !

قارئین! یہ 6اور 7 اپریل 2012 کی ایک عام صبح کی بات ہے جب سیاچن گلیشیئر کے دامن میں واقع گیاری سیکٹر کے لیے یہ صبح قیامت کی گھڑی لے کر آئی۔ پاک فوج کے 6 شمالی لائٹ انفنٹری بٹالین کے ہیڈکوارٹر پر اچانک ایک تباہ کن برفانی تودہ آ گرا۔ لمحوں میں سب کچھ برف کی تہوں میں دفن ہو گیا۔ صبح تقریباً چھ بجے، برفانی تودے نے اچانک فوجی کیمپ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ تودہ تقریباً 80 فٹ برف پر مشتمل تھا، جس نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اور 124 فوجی جوان اور 11 سویلین سمیت 139 شہادتیں ہوئیں۔ یہ سانحہ ایک وقت رونما ہوا جب وہاں پرموجود جانباز بارگاہے الہی ٰ میں سربسجود تھے۔اورصبح تقریباً چھ بجے کا وقت تھا جب تقریباً 80 فٹ موٹی برف کا ایک تودہ اچانک فوجی کیمپ پر آ گرا۔ اس وقت کیمپ میں افسران، جوان اور سویلین موجود تھے۔ لمحوں میں پورا ہیڈکوارٹر سفید موت کا شکار ہو گیا۔ شدید سرد موسم، برفباری، اور اونچائی نے ریسکیو کے ہر لمحے کو کٹھن بنا دیا۔پاک فوج نے فوراً دنیا کا سب سے طویل اور پیچیدہ ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ ملکی اور غیر ملکی ماہرین، سنو کٹرز، ایکسکیویٹرز، ٹنل بورنگ مشینیں اور تربیت یافتہ کتے اس مشن میں شامل کیے گئے۔ پہلی لاش جون 2012 میں نکالی گئی، اور ایک سال بعد جولائی 2013 میں آپریشن مکمل ہوا۔ یہ محض ایک تکنیکی مشن نہیں تھا بلکہ یہ قومی وفاداری، بھائی چارے اور فوجی غیرت کا مظہر تھا۔پورے ملک میں اس سانحے پر شدید غم اور احترام کا اظہار کیا گیا۔ اسکولوں میں دعائیہ تقریبات، قومی پرچم سرنگوں، اور شہداء کے گھرانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ حکومت پاکستان اور پاک فوج نے متاثرہ خاندانوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی قربانی کو وطن کی سلامتی کا ستون قرار دیا۔
شہداء کا تعلق پاکستان کے مختلف علاقوں سے تھا — پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، بلوچستان، اور آزاد کشمیر۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے بھی کئی دلیر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، مگر بدقسمتی سے ان کے نام اور تفصیل سرکاری طور پر الگ سے جاری نہیں کی گئی۔ ان سب شہداء کو قومی اعزاز اور فوجی احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔گیاری کا سانحہ وقت کی برف میں دفن ہو سکتا ہے، لیکن شہداء کی قربانیاں قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ وہ جوان جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں، انہوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ مادرِ وطن کا دفاع ہر قیمت پر مقدم ہے۔
یہ حادثہ پاکستان کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا، لیکن اس کے باوجود، ہماری قوم کے حوصلے بلند رہے۔ ہر شہید کا خون ہمارے ملک کے دفاع کے لیے دی گئی عظیم قربانی کی علامت ہے۔ گیاری میں جام شہادت نوش کرنے والے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ان کے مشن کو جاری رکھیں گے اور مادرِ وطن کے دفاع میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
گیاری سانحے کے بعد پاک فوج نے ایک طویل اور مشکل ریسکیو آپریشن شروع کیا۔جون 2012 میں پہلی لاش برآمد ہوئی اور اس کے بعد مزید لاشیں ملتی رہیں۔یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل اور پیچیدہ ریسکیو آپریشن تھا۔برفانی تودہ اتنا بڑا اور سخت تھا کہ اسے ہٹانے کے لیے خصوصی مشینری، سنو کٹرز، اور غیر ملکی ماہرین کی مدد بھی لی گئی۔ پاک فوج کے جوانوں نے دن رات محنت کی تاکہ شہداء کی لاشوں کو نکالا جا سکے۔ جو 2013 میں مکمل ہوا جب تمام لاشیں نکال کر شہداء کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ اس واقعے نے پاک فوج کے حوصلے اور قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔یہ سانحہ دنیا کی بلند ترین جنگی محاذ، سیاچن گلیشیئر کے قریب پیش آیا اور پاکستان کی فوجی تاریخ کے سب سے بڑے حادثات میں شمار ہوتا ہے۔ حادثے کے بعد پاک فوج، ریسکیو ٹیمیں، اور ماہرین برفانی حالات میں امدادی کارروائیوں میں خصوصی مشینری، تربیت یافتہ کتے، اور عالمی سطح کے ماہرین کو بھی اس مشن میں شامل کیا گیا، لیکن شدید برفانی حالات اور ناموافق موسم نے ریسکیو کام میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ اس کے باوجود، پاک فوج نے انتھک محنت اور عزم کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو نکالنے کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔

یاد رہے!گیاری، سیاچن گلیشیئر کے قریب واقع ایک حساس اور اسٹریٹیجک فوجی مقام ہے۔ یہ وہ محاذ ہے جہاں برف اور دشمن دونوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ گیاری نہ صرف سیاچن کے دفاعی نظام کا ایک اہم بیس کیمپ ہے بلکہ یہ علاقے میں لاجسٹک معاونت کا ایک کلیدی مقام بھی ہے۔ یہ علاقہ برف پوش پہاڑوں اور شدید موسمی حالات کی وجہ سے نہایت خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ سیاچن گلیشیئر دنیا کا بلند ترین جنگی محاذ ہے، جہاں پاکستان اور بھارت کی افواج برف سے ڈھکی بلند چوٹیوں پر تعینات ہیں۔ پاک فوج کی موجودگی گیاری میں نہ صرف سیاچن کے دفاعی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اہم ہے بلکہ یہ ایک لاجسٹک مرکز کے طور پر بھی کام کرتا ہے جہاں سے سپلائی اور کمک کو منظم کیا جاتا ہے۔
یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا دفاع محض بندوقوں اور مورچوں پر منحصر نہیں بلکہ اس میں جوانوں کا جذبہ، قربانی اور عزم سب سے اہم ہیں۔ گیاری کی برفانی وادی میں گونجتی شہداء کی یادیں ہمیں ہمیشہ یہ پیغام دیتی رہیں گی کہ وطن کی حفاظت کے لیے کوئی بھی قربانی زیادہ نہیں۔۔۔حادثے کے بعد، اس طرح کی چوکیوں پر برفانی تودوں سے بچاؤ کے لیے مزید جدید اقدامات پر غور کیا گیا، جن میں ایوالانچ وارننگ سسٹم، بہتر تعمیراتی ڈھانچے، اور فوجیوں کی بہتر تربیت شامل ہیں۔ سیاچن جیسے محاذ پر نہ صرف دشمن بلکہ قدرت کے عناصر سے بھی لڑنا ہوتا ہے۔ پاک فوج نے اس حادثے کے بعد برفانی خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید ایوالانچ وارننگ سسٹمز، محفوظ تعمیرات اور مزید تکنیکی تربیت کو اپنایا۔یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ گیاری جیسی چوکیوں پر تعینات فوجیوں کو غیر معمولی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شدید سردی، آکسیجن کی کمی، اور برفانی طوفان ان کے معمول کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود، پاک فوج نے یہاں مورچہ بندی کے جدید نظام اپنائے ہیں، جن میں زیر زمین پناہ گاہیں، برف سے بچاؤ کے لیے مصنوعی دیواریں، اور مواصلاتی نیٹ ورک شامل ہیں۔
آج جبکہ ہم سانحہ گیاری کے رونما ہوئے 14 مکمل ہونے پرتاریخ کے موجودہ مرحلہ کی طرف توجہ کرتے ہیں تو ہمیں ادراک ہوتا ہے کہ پاکستان کیساتھ کسی بھی نوعیت کی رنجش یا دشمنی رکھنے والوں کو اگرسب سے زیادہ کوئی مسئلہ درپیش ہے وہ مسلح افواج پاکستان ہیں۔یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کامل طورپرتسخیرکرنے کیلئے ضروری ہے کہ جس طرح مملکت کے ستونوں کے ٹرائیکا کوعملی طورپرفقط نمائشی حد تک وجود باقی رکھنے کامحتاج بنادیا گیا ہے۔گروہی،علاقائی،قبیلائی وفرقہ وارانہ تعصب و تنگ نظری کے خمیرسے اُٹھنے والی ”نفرت و تقسیم“نے پاکستان کو معاشی طورپرمفلوج،قانون کی عملداری میں تقریباََناکام اور عدالتی انصاف میں ”دُنیا میں آخری درجے تک پہنچا دیا ہے۔مگریہ پھربھی قائم ہے۔اور اسکا عزم اور اَنا برقرارہیں۔دشمن سمجھتے ہیں کہ مسلح افواج کی موجودگی میں اُنھیں اپنے اہداف و مقاصد کے حصول و تحفظ کی کوششوں میں ایسی کامیابی نہیں مل سکتی۔جسے دوام حاصل ہو۔اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ شیطانی عمل یعنی وسوسہ پیدا کرکے پاکستانیوں کے دماغوں میں خلل پیدا کریں۔ چنانچہ تمام رنجیدہ دوست اور دشمنوں نے اپنے اپنے اہداف کے حصول کیلئے پاکستان کو پہلوانوں کا اکھاڑا بناکر رکھ دیا۔اور اُنھیں مسلح افواج پاکستان اور قومی حلقوں میں تقسیم و تفریق کی خلیج پیدا کرنے میں ہی کامیابی نظرآتی ہے۔اور وہ مخلصانہ طریقوں سے اپنا کام کررہے ہیں۔ یہ جو آئے روز سوشل میڈیا کی خبروں،اطلاعات کا رونا رویا جاتا ہے،ماتم کیا جاتا ہے۔اور سارا غصہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے نکالا جاتا ہے۔یہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔لیکن اسکے منفی استعمال کو سب سے بڑا چیلنج باور کرواکر ”غیرضروری“مواقع پیدا کرنا بھی درست نہیں۔اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایک اچھا خاصا فوجی طاقت رکھنے والا ملک ”سوشل میڈیا“کی پوسٹوں کی مار ہے۔۔۔۔۔سوشل میڈیا کا مثبت استعمال دُنیا میں ہوتا ہے تواب نئے طرزکی جنگوں میں یہی ایک میدان جنگ بھی بنا ہوا ہے۔تاہم اسے تمام مسائل و پیچیدگیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی غلط ہے۔کیونکہ کسی نہ کسی حد تک ہمیں اپنی چارپائی(منجھی)تلے ڈانگ پھیرنے کی ضرورت بھی ہے۔کہ آخر کیوں ہم آنیوالے ہر دن کیساتھ کسی نئی پیچیدگی کا سامنا کررہے ہیں؟؟؟چونکہ یہاں سانحہ گیاری کے شہیدوں کے یوم شہادت کی تناظرمیں موضوع باندھا گیا ہے۔اس لئے جہاں شہیدوں کا تذکرہ ناگزیرہے،وہیں وطن کودرپیش چیلنجز کو بھی مدنظررکھنا ضروری ہے کہ کیونکہ سوال ہمارے شہیدوں کے بہنے والے خون کا ہے۔۔۔غازیوں کی شبانہ روز خدمات و،ایثار،محنتوں کے ثمرات کا ہے۔۔۔
جیسا کہ ذکر ہوا مسلح افواج کیخلاف سرگرم قوتیں اپنے ہدف بارے کلیئرہیں۔جبکہ ہم نے بطور ادارہ اور بطور قومی حلقہ یا قوم،اس نہج پر سوچنا شروع کیا تو ہوگا کہ ”خوشامد و چاپلوسی“ایسا مُہلک ہتھیار ہے جو دشمن کی سازشوں ومکاریوں اور کھلی جنگوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔۔۔ اسکے باوجود گمان کیا جاتا ہے کہ منفی پروپگنڈؤں کے ردعمل میں محض وقتی ترجیحات کا تعین اور ترجیحات کے غبارے میں ہوا بھر کر اُڑانے کی حکمت عملی قطعی درست نہیں ہے۔یہ وقتی طورپرشاید دشمن کے پروپگنڈے کے متوازن تھوڑی توجہ ضرورحاصل کریگی۔مگراسکے دیرپا اثرات نہیں ہیں۔۔۔۔
جب ہم مسلح افواج کی خدمات اور قربانیوں کو موضوع بناتے ہیں تو بِلاشُبہ ہمیں بطورادارہ اپنی مسلح افواج کے وجود اور کردارکے موثرہونے میں ہی اپنی ملکی و قومی سلامتی نظرآتی ہے۔لیکن یہاں کوئی لکیرنہیں کھینچی جاسکتی کہ فوج،پولیس،رینجرز،ایف سی سمیت سبھی ہماری سکیورٹی فورسز ہیں اور دفاع وطن میں اِنکا کردار ہے۔۔۔لیکن جب کہیں کوئی کمی کوتاہی نظرآئے،محسوس ہو تو یہ بھی قومی فریضہ ہونا چاہیے کہ محتاط انداز و الفاظ میں توجہ دلائی جائے۔
چہ جائیکہ منفی قوتوں کا زہریلا پروپگنڈہ وار کے مقابلے کیلئے مثبت تنقیدکرنیوالے دوستوں کی آراء بھی سنی جانی چاہیے،جوکہ اسوقت بہت کم ایسا ہورہا ہے کہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پرحنلوں،بلخوص جعفرایکسپریس کو یرغمال بناکر ہمارے حوصلوں پر جو وار کیا گیا ہے۔اسکے بارے میں سکیورٹی کی ناکامی یا کمزوری (جو بھی نام دیا جائے)پرمثبت اور دوستانہ رائے دی گئی ہوکہ یہ سکیورٹی کی ناکامی ہے۔۔۔ جسے کامیابی کا پہناوا دیکرحقائق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا کہ دُنیا اطلاعات و معلومات کے معالے میں بہت آگے جاچکی ہے۔اور پاکستان میں ٹچ فون رکھنے والا ہرکوئی رئیل نیوز کیساتھ ساتھ فیک نیوز سے بھی متاثر ہوتا ہے۔جب اُسے جعفر ایکسپریس پرحملے یرغمال بناکرجانوں سے کھیلنے کی خبرملتی ہے۔تووہ سوچتا ہے کہ ”خبروں میں خواتین،بزرگوں،نہتے شہریوں کا تذکر“خصوصیت سے کیوں کیا گیاہے؟؟کیا سکیورٹی فورسز میں خدمات انجام دینے والے اس ملک کے شہری نہیں؟اور کیا اُنکے حقوق اور تحفظ ”غیراہم“ہوسکتے ہیں؟؟ اور ستم طریفی یہ ہے کہ اسے تعریفوں کے خنجرسے دفاع کی پیٹھ بھی گھونپا جارہا ہے۔اور اس کام میں سیاسی حکومتی لوگ پیش پیش ہیں (جنہیں اگرملک وقوم سے کوئی سروکار ہوتا تو پاکستان میں گڈگورننس قائم کرتے اور لوگوں کو پیٹ کی فکر سے آزادکرواکر تعمیرملت کی جاتی)اسی طرح فرقہ وارانہ گروپوں نے بھی اپنی حاضری دالی ہے وہ بھی تعریف کرکے شاید کوئی گوہرمقصود حاصل کرنا چاہتے ہونگے۔۔۔کیونکہ باور کیا جاتا ہے کہ مثبت تقید اور منفی پروپگنڈہ میں تمیز نہ ہونے کیوجہ سے بہت سی خرابیاں جنم لئے ہوئے ہیں۔ایسے میں افواج سے اُدھارکھائے بیٹھے عناصر بھی کسی نہ کسی طرح مستفید ہوکر زہرآلود الفاظ کے بجائے یہ حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔حالانکہ یہ لوگ کسی سے مخلص نہیں ہیں۔اور اگراخلاص ہوتا تو ملک میں کسی بھی فرقہ کواپنی سرگرمیوں کے سلسلے مین کوئی خطرہ کیونکر ہوسکتا ہے؟؟جبکہ یہاں نماز بھی پہروں میں ادا ہوتی ہے۔۔۔پھر یہ کونسی حُب الوطنی اور دفاع وطن سے یکجہتی ہے؟؟؟
بہرحال تنقید اور دشمنی کے مختلف حملوں سے قطعی نظرعوام اور خواص میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنکا عملی طورپر دفاع وطن،اور وطن کے معاملات سے کوئی سروکار نہ ہو گا مگروہ سمجھتے ہیں کہ دفاعی اداروں کو”تعریف،تعریف ارو بس تعریف“کے وار سے ضربیں لگائی جائیں۔۔۔۔۔مگرجن حلقوں کا ملک و قوم کیلئے کوئی ایثار،کاوش،خدمات اور قربانیاں شامل ہیں وہ بہرحال یہ امربھی ملحوظ خاطر رھتے ہیں کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے منفی قوتیں فائدہ اُٹھاتے ہوئے مذید پروپگنڈے کریں۔لیکن وہ اپنی طرف سے مختلف حوالوں سے بہتری کی تجاویز ضرور دیتے ہیں۔اور کمی کوتاہی پربھی مناسب الفاظ میں بات کرتے ہیں۔
بہتریہی ہے کہ بناوٹی،مصنوعی حُب الوطنی کی آبیاری،فروغ کے بجائے زمینی حقائق کا جائزہ لیکر ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جوکہ اگلے بیس پچیس سال میں بھی موثر رہے۔کیونکہ ہم نے دفاع وطن کے عظیم مقصد کی خاطربہت قربانیاں دی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔اسکے باوجود ہمیں اپنے خون سے منفی پروپگنڈؤں کے اثرات زائل کرنے کیلئے صفائی دینا پڑ رہی ہے تو کیوں؟؟؟

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-