دنیا میں ٹرینوں پر دہشت گردی کے حملوں کی اپنی ایک تاریخ رقم ہے ۔ 1947ءمیں انڈیا سے آنے والی لاشوں بھری ٹرین ہو ،11 مارچ 2004 ءکو میڈرڈ میں مسافر ٹرینوں میںبم دھماکوں میں 193 افراد ہلاکت یا 7جولائی 2005ءکو لندن کی زیر زمین ٹرین کو نشانہ بنایا گیا جس میں 52افراد ہلاک ہوئے۔29مارچ 2010 کوماسکو ٹرین پر حملہ کیا گیا، دھماکوں میں40 افراد ہلاک ہوئے۔1 مارچ، 2014 ءکو،چین کے شہرکنمنگ میں ٹرین پر حملہ ہوا جس میں 31 افراد ہلاک ہوئے۔ ‘ یا پھر’ 3 اپریل 2017 کو سینٹ پیٹرزبرگ میں میٹرو ٹرین میں دھماکہ کیا گیاجس میں 15 افراد ہلاک ہوئے۔ایسا ہی ایک واقعہ پاکستان میں منگل کی صبح پیش آیا جب یہ خبریں آنے لگیں کہ سبی کے قریب کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرلیا گیا ہے
ظاہر ہے یہ اپنی نوعیت کا پاکستان میں پہلا واقعہ ہے، اس لئے کسی کو سمجھ نہیں آ رہی اسے کیا نام دے۔ اب سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا ہے کہ یہ دنیا میں ٹرین ہائی جیک کرنے کا “چھٹا” واقعہ ہے۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایسے واقعات کتنے کم ہوئے ہیں جبکہ اس کے برعکس جہاز ہائی جیک کرنے کی بیسیوں وارداتیں ہو چکی ہیں اس سے پہلے کراچی یا پنجاب سے کوئٹہ جانے والی مسافر بسوں کو راستے میں روک کر مسافروں کو نشانہ بنانے کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ تاہم ریلوے کے سفر کو محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ بلوچستان میں ریلوے کا ایک طویل ٹریک ہے اکثر علاقے ویران ہیں اور ریلوے لائن پہاڑوں کے درمیان سے بھی گزرتی ہے۔ اتنے لمبے ٹریک پر ہر وقت تو ہر جگہ پہرہ نہیں بٹھایا جا سکتا، تاہم جب کوئٹہ جانے والی گاڑیاں بلوچستان کی حدود میں داخل ہوتی ہیں تو ان کی سیکیورٹی بڑھا دی جاتی ہے۔ یوں یہ سفر محفوظ طریقے سے مکمل ہوتا رہا ہے، مگر اب اس واقعہ کے بعد جو خوف اور عدم تحفظ پیدا ہوا ہے اس سلسلے میں بلوچستان میں دہشت گردی روکنے کیلئے حکومت کو ہر قیمت پراپنی رٹ قائم کرنا ہوگی ۔انتہائی سختی کے ساتھ دہشت گردوں کو اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا وہ اس لیے کہ اس سے پہلے بھی جب بسوں سے اتار کر معصوم مسافروں کو شناخت کے بعد گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تو اس وقت بھی ملک کے سنجیدہ حلقوں نے حکومت پر زور دیا تھا وہ ایسے واقعات کے سدباب کے لئے موثر حکمت عملی بنائے، مگر ہم چونکہ بیانات کے ماسٹر ہیں، اس لئے ہر واقعہ کے بعد بیان بازی کرکے کام چلاتے رہے ہیں، اب اس ٹرین پر حملے کو بھی اگر ہم نے سنجیدہ نہ لیا اور صرف روائتی بیانات کی حد تک ردعمل دے کر رات گئی بات گئی، کے مصداق اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے تو پھر ایسی کوئی اور واردات دہشت گردوں کو مزید اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کا موقع دے گی۔ اس واقعہ کے بعد بلوچستان میں دہشت گردوں اور بیرونی آقاؤں کی شہ پر علیحدگی کا شوشہ چھوڑنے والوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ معاملہ سیاست سے بہت آگے کا ہے۔ اس میں براہِ راست ریاست کی سالمیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک سنگین جرم سرزد ہوا ہے، جس کی سزا دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو ملنی چاہیے۔اس حوالے سے ریاست کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پوری قوت سے ایسے فتنے کو کچل دیں جو بلوچوں کے حقوق کی آڑ میں دہشت گردی کررہا ہے۔
جبکہ دوسری طرف بلوچستان کو اس نہج پر پہچانے والے سیاسی حالات ہیں بلوچستان میں اس وقت ایک سیاسی فقدان اور خلاء موجود ہے ایسے بیشتر واقعات کے باوجود بلوچستان کے بارے میں ہماری ریاستی پالیسی کیا ہے۔۔۔؟ کیا ان محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے جو اس وقت بلوچستان کا دکھ بنی ہوئی ہیں۔ اس بنیادی بات کو تسلیم کیوں نہیں کرلیا جاتا کہ مقامی وسائل مقامی آبادی کے لئے استعمال ہونے چاہئیں۔ گوادر میں ترقی کے ثمرات سے اگر بلوچوں کو حصہ دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے پورا کرنے میں کیا ہرج ہے۔ بلوچستان میں روزگار، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کی ترقی جیسے بنیادی مطالبات پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی۔ایک عام بلوچ کے اندر جب تک یہ احساس پیدا نہیں کیا جاتا کہ ریاست اس کے ساتھ کھڑی ہے اور اسے بنیادی حقوق دے رہی ہے، اس وقت تک اس کی سوچ کو علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف متحرک نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کرلی اجائے اتنا ہی بہتر ہے۔ بلوچستان کو وہی عزت، سہولتیں اور مواقع دیے جائیں جو وفاق کے پاس ہیں، تاکہ محرومی کا اندھیرا خود بخود چھٹ جائے۔
یہ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں، ذہنوں میں بھی لڑی جانی چاہیے۔۔۔!!!
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-