حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں فضائی آلودگی میں نمایاں حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔جو ہر سال شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین نے ان تبدیلیوں کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئندہ برسوں میں ان تبدیلیوں کے اثرات اور زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ ملک میں پھیلی یہ فضا ئی آلودگی جیسے ہم سموگ کا نام دیتے ہیں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔سموگ نے کئی دنوں سے پنجاب کے مختلف شہروں خصوصاَ لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اور روز بہ روز صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت ملتان،فیصل آباد، اور ساہیوال کی فضا ذہر آلودہ ہوتی جا رہی ہے۔
سموگ دھوئیں اور دھند سےمل کے بنتی ہے، دھوئیں میں چونکہ کاربن مونو اکسائیڈ نا ئٹروجن اور دیگر زہریلا مواد شامل ہوتا ہے ۔جس کی وجہ سے سموگ زہریلی ہوتی ہے اور انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ سموگ کے بننے کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ زمین پر انسانوں کی ماحول دشمن سرگرمیاں ہیں۔ جن میں فیکٹریاں سے خا رج ہونے والا زہریلا دھواں ، کھیتوں میں لگائی جانے والی آگ، اینٹوں کے بھٹوں سے پھیلنے والا آلودہ دھواں اور اس کے علاوہ دھواں چھوڑتی دھواں سر فہرست ہے۔جس کی وجہ سے فضا آلودہ سے آلودہ ہونے کی وجہ سے اوزن کی لہر متاثر ہوتی جارہی ہے۔ جو ہر سال درجہ حرارت کو بڑھا رہی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے موسم سرما میں سموگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کا خاتمہ یقیناَ صوبائی اور وفاقی حکومت کے لیے بڑا چیلنچ ہے۔
اگرچہ سموگ کی فضا میں سکولوں کا بند کر دینا ایک اچھا اقدام ہے تاہم یہ دائمی مسئلے کا حل نہیں کیونکہ تعلیی اداروں کو وقتی تو بند کیا جاسکتا ہے مگر ایک طرف تو تعلیم کا نقصان تو دوسری جانب دیگر شعبے زندگی سے وا بستہ افراد کا کاروبار زندگی مفلوج ہو جاتا ہے۔
سموگ جیسے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لئے رواں برس حکومت نے بہت سارے پیشگی اقدامات کیئے جن میں فیکٹری مالکان اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو ہدایات کی گئی مزید یہ کے دھواں کنٹرول کرنے والے آلات نصب کیے جائیں جس میں بڑی حد تک کامیابی بھی ہوئی مگر پھر بھی اس سے سے بڑھ کر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ ہر سال شدت اختیار کر رہاہے اور مختلف بیماریوں کا موجب بن رہا ہے ۔
دوسرا اہم چیلنج ہماری حکومت کے لیے پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے فصلوں کی باقیات کو جلانے والا زہریلا د ھواں ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے آنے والے دھوئیں کے باعث پاکستان میں سموگ کا اضافہ ہوا جس کی وجہ سے بے شمار شہری سانس، دمے ،گلے اور دیگر امراض کا شکار ہوئے۔ اس مسئلے پر پڑوسی ملک سے بھی تعاون کا کہا جائے کہ وہ فصلوں کے مڈھوں کو جلانے سے اجتناب کرئے کیونکہ سموگ صرف ہمارا ندرونی مسئلہ نہیں یہ خطے کا مسئلہ ہے ایسے کہ اگر ہم سموگ پر حالیہ اقدامات کر کہ قابو پا بھی لیتے ہیں پھر بھی اس کا مکمل سد باب کر نے میں ناکام رہیں گے کیونکہ بھارت اس کی روک تھام کیلئے ہر معاملے کی طرح اس مسئلے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہا نہ ہی کوئی اقدامات کر رہا ہے۔
حالیہ فضائی آلودگی کا یہی سبب ہے جس کے دھوئیں نے دھند سے مل کرسموگ کی فضا پیدا کر کے صوتحال کو زیادہ خطرناک بنا دیا ہے۔جس کی وجہ سے پاکستان کے بڑ ے شہر کراچی اور لاہور سر فہرست ہیں جوکہ ماحولیاتی آلودگی کا نمونہ بن چکے ہیں۔ ان شہروں کی آب وہوا انسا نوں کے لیے ہی نہیں بلکہ جانوروں کے لیے بھی مضر ہو چکی ہے۔
اس صوتحال کو دیکھتے ہوئے کراچی جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی کچرے کی مارکیٹ بن گئی ہے جبکہ دوسری طرف لاہور فضائی آلودگی کی بنیاد پر سر فہرست ہے۔ سموگ کوئی ایک دن میں پیدا نہیں ہو گئی اور نہ ایک دن میں اس نے شدت اختیار کی ہے۔ حالات کو اس نہج تک پہنچنے میں طویل عرصہ لگا ہے‘ ان تمام پہلو وٗں کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس مسئلے کی نویت کو دیکھتے ہوئے ہنگامی اقدامات کرے مختلف ماحولیاتی تنظیموں اور ماحول پر گہری نگاہ رکھنے والے ماہرین کے ساتھ مل کر ایک جامع اور مربوط سموگ اور اس سے بچاوؑ کے حوالے سےپالیسی تشکیل دیں۔ ورنہ آنے والے سالوں میں خطے کو سموگ فری بنا نا مشکل ہو جائے گا-
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-