77سالہ طاقت اور اقتدار کی جنگ

آج کل پاکستان ایک عجیب و غریب صورتحال سے دوچار ہے اگرچہ ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی بحران اور ہنگامہ رہتا ہے، لیکن اِس وقت تو سیاسی میدان میں ایک طوفان برپا ہے۔ آج 77سال بعد بھی ہم سیاسی استحکام سے محروم ہیں، دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں اختلاف رائے بھی ہے مگر پاکستان کا تو بابا قوم کے بعد سے بابا آدم ہی نرالا ہو گیا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی دیکھیں ایک آئینی نظام کو تسلسل حاصل ہے مگر ہمارے ہاں کوئی پالیسی کوئی ادارہ آئین یا کوئی لیول آف گورننس ایسی نہیں جہاں تسلسل یا میرٹ نامی چڑیا چہچہا سکے۔۔۔

عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ اور میڈیا کسی بھی ریاست  کے اہم اور بنیادی ستون ہوتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ان میں سے کوئی ادارہ اپنی ساکھ برقراد نہ رکھ سکا۔
صرف اگر “عدلیہ” کو لے لیں تو اس میدان میں عوام کے ریلیف کے لیے اب تک 1973ء کے آئین میں 26 ترامیم میں سے کوئی ایک بھی ایسی ترمیم نہیں آئی بلکہ ہر ترمیم میں نظریۂ ضرورت‘ مزید ضرورت‘ میری ضرورت اور ضرورت بلا ضرورت کا سوپ سیریل چلتا چلا آ رہا ہے۔ اس ترمیمی سوپ سیریل میں نو عدد آئینی ترامیم صرف عدلیہ کے پر کاٹنے کے لیے لائی گئیں۔ جہاں انصاف فراہم کرنے والے اداروں کا یہ عالم ہے تو باقی سب کا یوں کہہ لو کہ اوے کا اوہ ہی بگڑ ہوا ہے اور یہ کوئی آج یا کل کی بات نہیں ہے بلکہ طاقت اور اقتدار کی اس جنگ  کی داستان کچھ ایسی ہے کہ گزشتہ کم و بیش چھ دہائیوں سے انتخابات، دھاندلی احتجاج اور جعلی مینڈیٹ کے الزامات ہماری جمہوری تاریخ کا وتیرا رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر تو ہم جمہوری ملک ہیں، لیکن عملی طور پر یہاں پر تقریباً 35سال تک چار فوجی ڈکٹیٹروں نے بلا شرکت ِ غیرے حکومت کی۔ یہاں ہمارے سیاست دانوں اسٹیبلشمنٹ اداروں اور عدلیہ کا چولی دامن کا ایسا گٹھ جوڑ رہا ہے جس کی بنا پر ہر ایک نے ایک دوسرے کو اپنے مفاد کے لیے خوب استعمال کیا اور ایک دوسرے سے خوب فائدہ بھی اٹھایا۔ سوال تو یہ ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچی کیسے ہے؟ کیا فوج خود بخود آکر اقتدار پر قبضہ کرتی ہے یا اسے دعوت دی جاتی ہے؟یاحالات ہی ایسے پیدا کر دیئے جاتے ہیں کہ فوج کے لئے ملک کا نظم ونسق سنبھالنا لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ تو اس کا مختصر جواب کچھ یہ ہے کہ اس سب میں بڑا ہاتھ ہمارے سیاستدانوں کا ہے، پھر ہماری عدلیہ کی باری آتی ہے، کیونکہ جب بھی فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اسے جھٹ سے تحفظ فراہم کردیا۔ دوسری طرف اپنےذاتی مفاد کی خاطر ہمارے سیاستدانوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش  رہی ہے کہ وہ میرٹ سے ہٹ کر اپنے وفادار جرنیلوں کو آرمی چیف  مقرر کریں، لیکن جب بھی کسی سیاستدان نے میرٹ سے ہٹ کر کسی جنرل کوآرمی چیف مقرر کیا تواسی آرمی چیف نے اس سیاست دان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ کہانی شروع ہوتی ہے…!

پاکستان کے قیام کے ابتدائی برسوں ہی سے سیاسی نظام عدم استحکام سے دوچار تھا۔ ملک بننے کے ایک سال بعد بانیٔ پاکستان محمد علی جناح دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی ملک بنانے والی جماعت مسلم لیگ میں اقتدار کی کشمش کا آغاز ہوا۔
قیام پاکستان کے بعد جب برٹش انڈین آرمی کے اثاثے، افرادی قوت اور اسلحہ و ہتھیار تقسیم ہوئے تو فوج کی کمانڈ برطانوی افسران کے پاس تھی۔ پاکستان میں ابتدائی برسوں میں فوج کے دو سربراہان برطانوی افسر تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جنرل سر فرینک والٹر میسروی پاکستان فوج کے کمانڈر ان چیف مقرر ہوئے۔ وہ فروری 1948 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جنرل میسروی کی ریٹائرمنٹ کے وقت  جنرل اکبر منہاس پاکستان آرمی کے سینئر ترین جنرل تھے۔ شنید ہے کہ وہ انتہائی ایماندار، مخلص، محنتی، تجربہ کاراور پیشہ ور جنرل تھے، لیکن ہمارے وزیراعظم  لیاقت علی خان نے اپنے سیاسی حواریوں کے کہنے اور بیرونی دباؤ پر ان کی بجائے جنرل ڈگلس گریسی کو   11فروری 1948ء آرمی چیف مقرر کر دیا۔ یہ وہی آرمی چیف تھے، جنہوں نے 1948ء کی کشمیر کی پاک بھات جنگ کے دوران دستے بھیجنے سے معذرت کی تھی۔ وہ جنوری1951 تک کمانڈر ان چیف رہے۔ جنرل گریسی کے دور ہی میں مقامی افسران کو ترقیاں دی گئیں اور ان کی سبک دوشی کے بعد جنرل ایوب خان پاکستان کی فوج کے پہلے مقامی سربراہ مقرر ہوئے- لیاقت علی خان نے ہی1951ء میں اپنے وفادار جنرل محمد ایوب خان کومیجر جنرل کے عہدے سے ترقی دے کر سات سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کر کے بری افواج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا۔ بعد میں گورنر جنرل غلام محمد خان نے 1953ء میں جنرل ایوب خان کو وردی میں ہی وزیر دفاع مقرر کر دیا،پھر وفادار سمجھے جانے والے اس جنرل نے اپنے محسن صدر جنرل اسکندر مرزا کو گھر بھیج کر اقتدار پر خودقبضہ کر لیا۔معاملہ عدالت میں گیا۔ فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد منیر نے ”نظریہ ضرورت“ کی اصطلاح ایجاد کرتے ہوئے ایوب خان کے اقدام کو درست قرار دے دیا،اسی پر بس نہیں بعد میں ایوب خان کے بنائے گئے 1962ء کے آئین کو بھی چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس اے۔آر۔ کارنیلیس نے جائز اور درست قراردے دیا۔

جب فیلڈ مارشل ایوب خان کے قدم ڈگمگائے اورانھیں ڈیدی کہنے والے جناب ذوالفقار علی بھٹو کے قدم مضبوط ہوئے تو بھٹو کی قیادت میں جنرل صاحب کے خلاف ایک بھر پور تحریک چلی، جس کے نتیجے میں ایوب خان نے اقتدار آرمی چیف جنرل محمد یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، اس غیر آئینی فعل کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ جسٹس حمود الرحمٰن نے اس مارشل لاء کو بھی جائز قرار دے دیا۔ جب بھٹو صاحب  وزیراعظم پاکستان بنے تو وہی کہانی پھر سے دورہائی گئی انہوں نے اپنے وفادار اور فرمانبردار جنرل محمد ضیاء الحق کو ان سے سات سینئر جنرلز کو  نظر انداز کرکے چیف آف دی آرمی سٹاف بنادیا۔ جنرل  صاحب نے 1977ء میں اقتدار پر قبضہ کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔اس مارشل لاء کو ایک بار پھر سے چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس انوارالحق نے تحفظ فراہم کیا،بعد میں جناب ضیاء الحق نے اپنے محسن جناب ذوالفقار علی بھٹو کو جج صاحبان کی مدد سے پھانسی پر لٹکوا دیا۔
میاں محمد نواز شریف نے 1998ء میں اپنی دوسری وزارت عظمیٰ کے دور میں تین سینئر جنرلز کو نظر انداز  کر کے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا۔ جنرل پرویز مشرف نے  12اکتوبر 1999ء کو میاں صاحب کا تختہ اُلٹا،انہیں گرفتار کیا اور بعد میں جلا وطن کر دیا اور خود نہ جانے کس قانون کے تحت  ملک کے چیف ایگزیکٹو بن کر بیٹھ گئے۔ دائرے کا یہ سفر ٹھرا وقت کے چیف جسٹس جناب ارشاد حسن خان کے ہاتھ میں اور ایک بار پھر مشرف کے غیر آئینی فعل کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا، بلکہ انہیں آئین میں ترامیم کی اجازت بھی دے دی۔
وقت نے پھر کروٹ لی، میاں نواز شریف صاحب نے  2016ء میں اپنے تیسرے دورِ حکومت میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان سے تین سینئر جنرلز کو نظرانداز کر کے آرمی چیف بنایا۔ باجوہ صاحب نے جناب عمران خان اور وقت کی سپریم کورٹ سے ملی بھگت کر کے جناب نواز شریف کو نہ صرف وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروایا، بلکہ سیاست کے لئے بھی نااہل قرارا دلوایا۔ جب جناب عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے باجوہ صاحب کو تین سال کے لئے ایکسٹینشن دیدی۔ سپریم کورٹ نے دخل اندازی کی تو تمام سیاسی جماعتوں نے باجوہ صاحب کی ایکسٹینشن کی خاطر آرمی ایکٹ میں ہی ترمیم کر ڈالی۔ عمران خان صاحب کے دور میں ”باجوہ ڈاکٹرائن“ بہت مشہور ہوا۔ حتیٰ کہ ایک وقت یہ بھی آیا کہ جناب عمران خان نے انہیں دوبارہ وزیراعظم بنوانے کے عوض تا حیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش کرڈالی،پھر بھی باجوہ صاحب نے پی ڈی ایم کی مدد سے عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کروا ڈالی،جس کے نتیجے میں ”باجوہ ڈاکٹرائن“ والے  جنرل صاحب کو ”میر جعفر اور میر صادق“ جیسے القابات سے نوازا گیا۔

موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف نے 2022ء میں جناب  جنرل عاصم منیر کو اپنا وفادار سمجھتے ہوئے ان سے تین سینئر جنرلز کو نظر انداز کر کے آرمی چیف بنایا۔ وہ اس تعیناتی سے پہلے ریٹائر ہونے والے تھے لیکن وفاقی حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے انہیں ”ریٹین“ کر کے آرمی چیف بنادیا۔ اب پوری حکومت جنرل صاحب کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی، اب موجودہ حکومت نے اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگانے اور عدلیہ کو اپنا فرمانبردار بنانے کے لئے آئین پاکستان میں 26 ویں  ترمیم کرڈالی اور پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر دو سینئر ججوں کو نظر انداز کر کے چیف جسٹس بھی مقرر کر دیا ہے،  جب تک آرمی، عدلیہ اور بیورو کریسی میں سنیارٹی کے اصول کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، اپنے وفادار اور فرمانبرادر افسر ڈھونڈنے سے توبہ نہیں کی جاتی،تب تک ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ وہ۔اس لیے بھی کہ گزشتہ 77 سالوں سے ہم انہی دائروں میں سفر کر رہے ہیں اور فی الوقت بھی اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں دیکھ رہی ہے اور ان ہی حکمرانوں کے غلط فیصلے اس کی عوام اور آنے والی نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-