26 ویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں میں آخرکار دو ہفتے کی تک و دو کے بعد منظور ہو کر اب آئین کا حصہ بن گئی ہے۔ یہ آئینی ترمیم اس لیے بھی لازمی تھی کہ اس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے انتخاب کی وضاحت بھی کی گئی اور 25 اکتوبر سے پہلے یہ آئینی ترمیم اس لیے ضروری تھی کہ پرانے قانون کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ سینئر ہونے کے ناطے چیف جسٹس نہ بن جائیں۔ اور اب پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت کے سے جسٹس یحیی آفریدی کو نامزد کر دیا ہے اس طرح جسٹس یحیی آفریدی ملک کے اگلے چیف جسٹس ہونگے۔ 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا بند کمرے میں اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار پارلیمانی کمیٹی نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کی۔
سپریم کورٹ کے نئے نامزد جج جسٹس یحییٰ آفریدی 23جنوری 1965 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن جبکہ پنجاب یونیورسٹی لاہورسے ایم اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔ کامن ویلتھ سکالرشپ پر جیسس کالج کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے 1990 میں ہائیکورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی اور 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طورپر وکالت کا آغاز کیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خیبر پختونخوا کے لیے بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی خدمات بھی سرانجام دیں۔ 2010 میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے، انہیں 15مارچ 2012 کو مستقل جج مقرر کر دیا گیا۔ 30 دسمبر 2016 کو جسٹس یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ کا حلف اٹھایا۔ 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلیٰ عدلیہ میں مختلف مقدمات کی سماعت، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں لارجر بینچ کا حصہ رہے اور کیس سے متعلق فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ لا کا حصہ بھی رہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کی تین رکنی ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔ جبکہ دوسری طرف اگر آئینی ترمیم کے حوالے سے بات کی جائے تو ابتدائی ترمیمی مسودے میں شامل 50شقوں کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کیلئے22تک محدودکیا گیا۔ترامیم کا زیادہ تر تعلق عدالتی اصلاحات سے ہے۔تاہم یکم جنوری 2028تک سود کے مکمل خاتمے کا فیصلہ پوری قوم کے دل کی آواز ہے۔عدلیہ کے حوالے سے قیام پاکستان سے اب تک شکایات کا ایک طومار تھا،جس کے ازالے کی کوشش کی گئی ہے۔چیف جسٹس کی تقرری میں سینیارٹی کے ساتھ میرٹ کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہےاور اس کا فیصلہ پارلیمانی کمیٹی نے کیا جو اس امر کا استعارہ ہے کہ پارلیمنٹ ہی ملک کا سپریم فیصلہ ساز اور بااختیار ادارہ ہے۔آئینی تنازعات کا فیصلہ کرنے کیلئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ بنائے جائیں گے جن کے ججوں کا تعین جوڈیشل کمیشن کرے گا۔چیف جسٹس کا سوموٹو اختیار ختم کردیا گیا ہے،جس پر مختلف اوقات میں اعتراضات کیے جاتے رہے۔یہ اختیار اب آئینی بینچ کے پاس ہوگا۔
آئینی ترامیم کے بارے میں سیاسی رہنمائوں کے اپنے اپنے موقف ہیں ۔تحریک انصاف نے رائے شماری کے وقت سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں کا بائیکاٹ کیا جو اس کا استحقاق ہے مگر بہتر ہوتا کہ وہ دونوں ایوانوں میں اپنی تجاویز بھی پیش کرتی تاکہ عوام کو اس کے نقطہ نظر کا پتہ چلتا۔محض یہ کہنا کافی نہیں کہ حکومتی ترامیم سے عدلیہ ،انتظامیہ کے تابع ہوجائے گی اور اس کی آزادی پر اثرپڑے گا۔اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئینی ترامیم حکومت نے اپنے تحفظ کیلئے کی ہیں۔اگر ایسا ہے تو حکومت کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ کل اسے بھی اپوزیشن میں بیٹھنا پڑسکتا ہےاور جو شکایت آج اپوزیشن کو ہے ،کل اسے بھی لاحق ہوسکتی ہے۔اس لئے اسےتوازن اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئےتاکہ ملک میں سیاسی بحران، انتشار اور کشمکش کی فضا ختم ہو۔آئینی ترامیم کا یہ پہلو بھی مدنظررکھنا چاہئے کہ اس وقت ہزاروں نہیں ،شاید لاکھوں مقدمات عدالتوں میں زیرالتوا ہیں،جن کی سماعت کی باری ہی نہیں آتی۔آئینی بینچ تشکیل پانے کے بعد توقع ہےکہ ایسے مقدمات بھی عدالتوں میں سنے جائیں گے جن کی سالہا سال سے باری نہیں آئی اور غریب سائلین ناپرسی کا شکار ہیں،انصاف انھیں بھی ملنا چاہئے،26ویں ترمیم میں آئینی بینچوں کی گنجائش اسی لئے پیدا کی گئی ہے ۔اس سے عدالتوں میں مقدمات کی شنوائی اور انصاف تک سب کی رسائی آسان ہوجائے گی۔حکومت فوجداری قوانین میں بھی ترامیم کرنے جارہی ہے،جس سے انصاف سہل اور سستا کرنے میں مدد ملے گی۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-