مشرقِ وسطی میں پھیلتی جنگ

فلسطین میں اسرائیل کی خونریز جنگ کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے تاحال اسرائیل فلسطین میں جنگ بندی پر تیار نہیں۔ 365 مربع کلومیٹر کی غزہ ریاست کھنڈرات کا ڈھیر بن چکی ہے۔ اس نسل کشی پر ساری مہذب دنیا تڑپ اٹھی‘ اس جنگ میں اسرائیل نے سفاکیت اور بربریت کی شرمناک تاریخ رقم کی ہے اس کو کسی عالمی دباؤ  سے کوئی سروکار نہیں جبکہ اقوام متحدہ کا 79واں اجلاس اس وقت ہوا جب یہ جنگ سفاکیت کی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ نیتن یاہو جنرل اسمبلی میں تقریر کے لیے آیا تو اس پر احتجاج کرتے ہوئے شہباز شریف اور ان کے وفد نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یو این او کے فلور سے واک آؤٹ کیا۔ یہ اب تک کا اسرائیل کے خلاف سب سے بڑا اور موثر احتجاج تھا جو عالمی فورم پر کیا گیا۔پاکستان کے ساتھ اور بھی کئی ممالک نے اسرائیل کے وزیراعظم کی تقریر کا بائیکاٹ کرتے ہوئے فلور سے واک آؤٹ کیا۔ یہ علامتی احتجاج عالمی فورم پر ایک موثر پیغام تو دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے کیا تبدیل ہوگا کیا اس سے اسرائیل پر کوئی اخلاقی دباؤ پڑے گا ؟فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کے جنگی جرائم کا سب سے بڑا حمائتی اور پشت پناہ امریکہ کی پالیسی میں کوئی فرق آئے گا۔یقیناً جنرل اسمبلی کے اس اجلاس میں انسانیت کی ہلکی سی رمق رکھنے والے ممالک نے بھی 11 ماہ سے جاری فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم کی مذمت کی ہے اور فوری طور پر جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔کیا اس احتجاجی تقریروں سے اسرائیل مشرق وسطی میں جنگ کے پھیلاؤ کی ہولناک پالیسی کو بدلے گا۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی طاقت ہے جو اسرائیل کو مزید انسانوں کا خون پینے سے روک سکے ؟اس کا جواب اس وقت تو نہیں میں لگ رہا ہے کیونکہ اسرائیل کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے بہیمانہ اقدامات کے پیچھے اسے ہر قسم کی اخلاقی مالی اور ملٹری امداد دینے والے عالمی طاقتیں کھڑی ہیں جو جنرل اسمبلی میں ویٹو کا حق رکھتی ہیں۔ اسرائیل بغیر رکے گزشتہ 11 ماہ کے دوران فلسطینی علاقوں پر بمباری کرتا رہا ہے۔ اس دوران 41 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے ان میں 17 ہزار معصوم بچے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی ہسپتالوں میں زندگی اور موت سے لڑ رہےہیں۔ اور اب 11 مہینوں سے فلسطینی علاقوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دینے کے بعد اسرائیل کی توبوں کا رخ لبنان،یمن اور شام اور ایران کی جانب کر لیا ہے۔

ستمبر کے آخری ہفتے میں اسرائیل نے لبنان پر بڑا جنگی حملہ کیا  جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ شہید ہوئے یقینا مزاحمتی اسلامی تحریک کے لئے بڑا دھچکا ہے۔قاسم سلیمانی اوراسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت غیر متوقع نہیں تھی جس انداز سے اللہ کی اس جماعت نے اسرائیل کا جینا دوبھر کردیا تھا، دفاعی اور عالمی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل،لبنان اور غزہ میں جنگ مزید تیز ہو گی جو عالمی جنگ کا نقشہ بھی اختیار کرسکتی ہے۔جو کہ حالیہ اسرائیلی کاروائیوں سے نظر آرہی ہے۔ اسرائیل کے ٹارگٹ حملوں میں نئے منتخب ایرانی صدر کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں شرکت کے لئے آنے والے حماس کے لیڈراسمعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد خطے میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگیا تھا اور  گزشتہ دنوں لبنان میں حزب اللہ کے مشہور رہنما حسن نصراللہ کے ساتھ دیگرکئی اہم رہنماؤں کوشہید کر دیا گیا تھاجس میں پاسدارانِ انقلاب کے ایک جنرل بھی شامل ہیں۔اور ان کی شہادت کا بدلہ منگل اور بدھ کی شب ایران نے اسرائیل پر میزائلوں سے حملہ کرکے لیا۔۔  ایران نے اسرائیل پر 400 سے زائد بیلسٹک میزائل داغے جو اصفہان، تبریز، خرم آباد، کرج اور اراک سے فائر کیے گئے جس کے بعد مقبوضہ بیت المقدس سمیت اسرائیل بھر میں سائرن بجنے لگے، میزائل حملوں کے بعد اسرائیلیوں نے بنکرز میں پناہ لی۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے نیتن یاہو کو عبرانی زبان میں سخت پیغام دینے ہوئے کہا کہ ایرانی حملہ اسرائیلی جارحیت کا فیصلہ کن جواب ہے، حملہ ایران کے مفاد میں کیا، نیتن یاہو کو سمجھ جانا چاہئے کہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو اگلا حملہ اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا۔

نیتن یاہو نے عسکری قیادت کے اجلاس میں کہا کہ  ایران نے اسرائیل پرحملہ کر کے بہت بڑی غلطی کی ، قیمت چکانا ہوگی مذید یہ کہ اسرائیل کسی سلامتی کو نسل یا جنرل اسمبلی کی قرارداد کی پروا نہیں کرے گا۔امریکہ برطانیہ و دیگر مغربی ممالک بظاہر جنگ بندی کی باتیں کر رہے ہیں،لیکن مسلمانوں پر گرایا جانے والا گولہ بارود انہی ممالک کا فراہم کردہ ہے-

اسرائیل ایک سال سے امریکہ اور اکثر یورپی ممالک کی مکمل حمایت اور اُن کے مسلسل فراہم کردہ مہلک ترین اسلحے کے ساتھ غزہ پر خوفناک بمباری کر رہا ہے مگر اس کا ہاتھ روکنے والاکوئی نہیں۔ اس کے پاس اسلحے کے اتنے انبار ہیں کہ جتنے سارے عربوں کے پاس ملا کر بھی نہیں ہوں گے۔ امریکہ اور یورپ کا سارا اسلحہ اور ساری جدید ترین ٹیکنالوجی بھی اسرائیل کی دسترس میں ہے۔
اسرائیل غزہ کی ایک سالہ جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اسرائیلی دہشت و بربریت رکوانے اور سیز فائر کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہے مگر امریکہ اور اس کے حواریوں نے اُن کی کسی کاوش کو بار آور نہیں ہونے دیا۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت سے قبل گوتریس نے یو این او جنرل اسمبلی کے 79ویں سیشن کے افتتاحی اجلاس سے نہایت دردمندانہ خطاب کیا تھا۔ انہوں نے یوکرین‘ غزہ‘ سوڈان اور میانمار وغیرہ میں بے قصور شہریوں کی ہزاروں کی تعداد میں اموات‘ زخمیوں اور مالی نقصانات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ گلوب اب بڑی طاقتوں کی من مانی کی دنیا ہے‘ یہاں اقوام متحدہ کے قوانین اور اس کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جاتی ہے‘انہوں نے کہا کہ غزہ میں یو این او کے 200 سٹاف ممبران بھی اس جنگ کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود ہمارے ہزاروں رضاکار جنگ زدہ غزہ میں امدادی کام انجام دے رہے ہیں۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو چاہتا کیا ہے؟

  اسرائیل مسلسل جنگ کی آگ کو بڑھا رہا یے اسرائیل کو ہر طرح سے امداد دی جا رہی ہے- اسرائیلی سفاک اور انتہا پسند لیڈر یہ چاہتا ہے کہ وہ حماس کی قیادت ہی نہیں‘ اس کے سٹرکچر کو بھی تباہ کر دے۔ اسی طرح وہ حزب اللہ کا بھی خاتمہ چاہتا ہے۔ صہیونی ریاست کا پروگرام ہے کہ علاقے کی کسی مزاحمتی تحریک کو سر اٹھانے نہ دیا جائے۔نیتن یاہو جنگ کو پھیلا کر ایران تک لے جانا چاہتا ہے تاکہ اگر ایران ردعمل کے طور پر کوئی اقدام کرے تو اسے جواز بنا کر اسے بھی سبق سکھایا جائے اور علاقے میں اپنی مکمل دھاک بٹھا دی جائے۔ پہلے امریکہ اور مغربی طاقتوں نے عراق کو اس جال میں پھانسا اور اس کی ساری مضبوط جنگی مشینری اور فوج کو تباہ کر ڈالا۔ مگر ایران ایسے کسی ٹریپ میں نہیں آئے گا۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کے قریبی اتحادی عرب ممالک کیا عالمی طاقت پر کوئی دوستانہ یا اخلاقی دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہیں ؟ کیا وہ امریکہ کو غزہ میں فوری طور پر سیز فائر کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں؟
کیا وہ 1967ء اور 1973ء کی طرح اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ کرنے پر تیار ہو سکتے ہیں؟ اُس وقت شاہ فیصل شہید نے مغربی دنیا کو تیل کی ترسیل بند کر دی تھی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور ابراہم اکارڈ کے حوالے سے اہم عرب ممالک اسرائیل کو اس کی قانونی و اخلاقی ذمہ داریاں یاد دلا سکتے ہیں اور سیز فائر پر آمادہ کر سکتے ہیں؟ یہ مختلف آپشنز ہیں۔

امریکی انتخابات سر پر ہیں‘ موجودہ حکمران جماعت ڈیمو کریٹس کی کامیابی میں ہمیشہ امریکی مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ چونکہ ڈیمو کریٹس ریپبلکنز کی طرح تارکین وطن کے خلاف نہیں‘ اس لیے وہ اسے اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ ریاست مشی گن میں مسلمانوں کی کثرت ہے۔ اس بار وہاں کے مسلمانوں نے ڈیمو کریٹس کی اسرائیل نواز پالیسی کی بنا پرا نہیں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مغرب کے حکمران خود تو اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی روکتے ہیں اور نہ ہی سیز فائر کے لیے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں‘ تاہم وہ اپنے ملکوں میں اسرائیل کی پُرزور مذمت کے لیے لاکھوں اور ہزاروں کے مظاہرے‘ چاہے وہ وائٹ ہاؤس واشنگٹن کے سامنے ہی کیوں نہ ہوں‘ پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتے۔ جبکہ یہاں پاکستان میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار حکمران اہلِ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے اسلام آباد یا کراچی میں کوئی چھوٹا بڑا مظاہرہ بھی ہو تو اسے لاٹھیوں اور آنسو گیس سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور سینیٹر مشتاق احمد جیسی شخصیت کو بھی گرفتار کر لیتے ہیں۔
یہ ہے عربوں اور مسلمانوں کا موجودہ منظر نامہ جس کی روشنی میں آپ نے مستقبل کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔ اس حقیقت حال کو مدنظر رکھیے کہ امریکہ اور یورپ ٹنوں کے حساب سے اسرائیل کو اسلحہ اور ہر طرح کی بھاری امداد فراہم کر رہے ہیں۔ صہیونی ریاست گریٹر اسرائیل کے لیے اپنی توسیعی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مزاحمتی تحریکیں اپنی لیڈرشپ کے نقصانات سے وقتی طور پر قدرے مدھم تو ہو جاتی ہیں مگر پھر وہ پوری قوت سے ابھرتی ہیں۔

اس وقت تمام عرب اور مسلم قیادتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور ایک فیصلہ کن پالیسی طے کر کے خطے کو بدامنی سے پاک کرانا چاہیے۔ بالخصوص غزہ اور لبنان میں خونِ مسلم کی ارزانی بند کرانی چاہیے۔ اس وقت او آئی سی کا فوری ہدف خطے میں مستقل سیز فائر اور فلسطین کی خودمختار ریاست کا قیام ہونا چاہیے۔
ورنہ یہ جنگ ایسے ہی جاری رہے گی۔گریٹر اسرائیل کے قیام تک۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-