خدا نے انسانیت کو اپنے محبوبﷺ کاتحفہ دیا ہے

کعبہ شریف جانے کے لیے اک عمر تک تڑپا ترسا سسکتا رہا ہوں مگر جب تصور کے جہاں میں بلایا گیا تو کعبہ کو دیکھتے ہی خوشی کی جگہ ندامت نے لے لی۔۔۔۔مجھ سے تو خدا کے احساس میں خدا کے گھر کا سامنا نہیں ہو پا رہاخداکا سامنا کیسے ہوگا؟کعبہ کی چاردیواری کے اندر موجود خدا کا احساس کعبہ کو دیکھنے کی خوشی کی بجائے خدا کے سامنے پیش ہونے کے خوف میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔
میں حکم خدا کی نافرمانی کا مجرم ہوں شرم وندامت کے آنسورخساروں سے ٹپک کر فرش حرم دھو رہے تھے دل و روح منت ترلوں پر مبنی درخواست معافی و رضاکا ورد کیے جا رہے تھے زبان پر چھپ کا تالا تھا اور بولوں بھی تو کس زبان سے بولوں جس نے اتنا شکر ادا نہیں کیا جتنے شکوے ادا کر دئیے ہیں جسم نازک پر حالات کے برستے پتھروں سے زخمی زندگی جینے والا آزمائش کی چکی میں پستے ہوئے کیا کیا خیال وتصورات اور گمان خدا سے وابستہ کرتا رہا۔۔جو بنتے ہی نہیں تھے۔۔آج تصور خدا میں خدا کا گھر دیکھتے ہوئے شرمندگی ومعافی کی گہری کیفیت جھنجھوڑرہی تھی یہ حدود کعبہ ہے جہاں ابلیس کسی صورت داخل نہیں ہو سکتا جو یہاں بھی حقیقی احساسات و جذبات میں گمراہی کے وسوسوں کی ملاوٹ کروا کے اقرار جرم کے پہلوؤں کو فراموش کروا دے۔

یہ مقام حرم کی خاصیت ہے کہ ایمان کی روح اپنی حقیقی آزادی اظہار میں اپنے خالق کے سامنے کلمہ حق بیان کر تی ہے یہ حاضری اصول جسم کی بجائے مزاج روح پر مبنی ہوتی ہے اسی لیے جسم کعبہ کے سامنے کھڑا ہے اور روح کعبہ والے کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی اس احساس میں مبتلا کیے ہوئے ہے کہ میں روز حساب خدا کی عدالت کے کٹہرے میں بطور مجرم کھڑاہوں جیسے ہوش سنبھالنے سے لیکر ہوش گنوانے تک پچھلی ساری زندگی جرم کا اقرار کروا رہی ہے شدت سے جی چاہ رہا ہے کہ اپنے آنسوؤں کو ندامت کا سمندر بنا کر ڈوب جاؤں اور پھر کبھی خدا کے سامنے نا آؤں محبت خداسے محروم ہو جانا میرے لیے جہنم کی سزا سے بڑی سزا ہے میری اس حالت پہ تو دوزخ کو بھی ترس آ جائے مگر مجھے مجھ پہ ترس نہیں آ رہا تھا کیونکہ آج مجھے اپنے ہی ہاتھوں اپنا سب سے بڑا خسارہ کرجانے پر خود پہ بڑا غصہ آ رہا تھا۔

یار سوچو تو سہی کہ سب سے افضل و اعلیٰ ذات خدا تخلیق محبت میں نور محمد ؑ پیدا کرکے انہیں وجہ تخلیق کائنات بنا کر اشرف المخلوقات میں مجھے پیدا کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک زندگی سونپتا ہے کہ اے میرے بندے مجھ سے مجھی کو پا لو۔۔۔یار دیکھو میں خدا سے خدا کو ہی نہیں لے سکا اس سے بڑا کوئی خسارہ ہو سکتا ہے؟ہمیشہ خدا کی طرف دنیاوی غرض سے ہی گیا ہوں کبھی ملنے کی محبت میں گیا ہی نہیں۔۔۔جوخود میں خدا کا بسیرا نہیں کر پایا ایسا نالائق بھی بھلا کوئی ہوگا؟خدا کے گھر سے نکالے جانے کا مستحق بندہ خانہ کعبہ میں کھڑا ہو اور خدا فرشتوں کو نکالنے کا حکم دینے کی بجائے اس کے آنسوؤں کو توبہ و معافی کے موتی بنا کر اپنے دامن رحمت میں رکھ لے اس سے بڑی سچی محبت کی کیا دلیل ہوسکتی کہ خدا بندوں کے ساتھ بندوں کی طرح پیش نہیں آیا یہ اُ س کے معیار خدائی کا معاملہ ہے۔
؎میں نے شرمندہ شرمندہ ارکان عمرہ پورے کیے دونوں ہاتھ جوڑے الٹے پاؤں حدود حرم سے باہر نکلا اور مدینے کی جانب سفر شروع کر دیا۔۔۔بارگاہ رحمت ا لعالمین ﷺ میں حاضری۔۔۔میری کندھوں پر جو غار حرا کے پہاڑ جیسا بوجھ تھاایسا لگ رہا تھا اس میں کوہ طور کا بوجھ بھی شامل ہو گیا ہے میری حیات کے دامن اعمال میں عبادتوں کی کثرت تھی نا تکمیل سنت کا غلبہ تھا مگر خدا کی موجودگی کے سچ جیسا ایک سچ میری روح کا وضو بن کر ہمیشہ ساتھ رہتا تھا کہ جتنا ادب خدا ہے اتنی محبت محبوب خدا ؑبھی ہے میں نے سچے سُچے دوست کی طرح خدا سے بہت سے گلے شکوے شکایتیں ان گنت سوال کیے ہیں مگرمحبوب خدا سے محبت و ادب کے سوا کچھ نہیں کیا جب بھی مدینہ پاک کی زمین کے میرے قدم بوسہ لیں گے تو زرہ زرہ میری محبت و ادب کے احساس کو محسوس کرکے تڑپ و چاہت کی گواہی دے گا کیونکہ مدینہ پاک کے زروں میں بھی محبت کی دھڑکنوں کو محسوس کرنے والا دل ہوتا ہے اسی لیے تو خاک مدینہ کو خاک شفا مانا جاتا ہے مدینہ کی فضا خزاں ذدہ زندگیوں میں بہار کا جھونکا بن کر سادہ حیات کو آب حیات کا جام پلا دیتی ہے میرے وجود کے اندھیرے تو اس تصور سے ہی مٹنے لگتے ہیں کہ اُ س نظارے کا کیا سرور ہوگا جب نگاہیں حضور ﷺ کا دیدار کرکے اپنے نور پر ناز کریں گئیں کان حضور ﷺ کی آواز سے اپنا بہرہ پن دور کریں گے حضور ﷺ میرا نام لے کر مجھے مخاطب فرمالیں تو میرے ہونے کا حق ادا ہو جائے گا میرا حقیر پن امیر پن میں بدل جائے۔میں اپنی عمر پر پڑے دنیا کے نیلے نشان حضور ﷺ کو دیکھاتے ہوئے کہوں کہ دیکھیں سرکار ؑ آپ سے دوری نے درد کی مہریں لگا رکھی ہیں اور حضور ﷺ کی نظر شفا ماندمرہم پڑے اور میرے زخموں کو محبت کی نشانیاں بنا ڈالے۔
میں پیار کے شہر مدینہ میں ہوں یہ سوچ کے ہی خود پہ پیار آنے لگتا ہے خوش قسمتی اپنا اقرارکروا نے لگتی ہے مگر روضہ رسول ﷺ میں حاضری کا احساس جہاں روح کو تازگی بخشتا ہے وہاں یہ گمان غمزدہ بھی کر دیتا ہے کہ مجھ جیسے اُمتی کے وجود کا مرکز جو ہستی ہیں اُن کے پاس جائیں اور دامن ایمان تحفے سے خالی ہوتو بندہ اپنی شرمندگی لے کے کہاں جائے میں تو مسجد نبوی ؑ کے پلیروں کے پیچھے چھپ چھپ کر بیٹھا رہوں کہ مجھ سے روضہ رسول ﷺ کے قریب جانے کی ہمت نہیں ہے آسمان کی جانب نظریں جما کے پکاروں کہ اے خدا درگزرکا معاملہ فرماپردہ پوشی فرما میری وجہ سے خدا کے سامنے میرے نبی ؑ کو میری بد اعمالی کا منظر دیکھنا پڑے کاش کہ میرا وجود ہی نا ہوتا۔

اے خدا آج ایک سودا کرتے ہیں تو نے مجھے موم کا دل دے کر پتھر کے زمانے میں جو اتارا ہے اس دنیا کی جہنم میں جو جلایا ہے اس کا کچھ تو انعام تیری طرف سے بنتا ہوگاوہ انعام یہ کردے کہ میری وجہ سے تیرے محبوب ؑ کو تجھ پہ پیار آئے۔
اے خدا اپنے حبیب ؑ کے آنسوؤں سے تر دُعا کے لیے اُٹھے ہاتھوں کے پیالوں میں جس طرح تونے اپنی کرم نوازی کا نور ڈال کر اپنا محبوب راضی کیا تھا آج بھی اُسی محبوبؑ کی خاطر میرے سیاہ اعمالوں سے اوپر اُٹھ کر اپنے دست سخاوت سے کچھ ایساعطا کر دے جو پردہ پوشی کے غلاف میں لپیٹ کر در مصطفی ؑ پہ پیش کرکے عزت بچا لوں۔

یہ مکہ و مدینہ سے منسلک مسافروں پہ کرم کا کرشمہ ہے کہ کاسہ دل دعا کی قبولیت سے بھر دیا جاتا ہے اک پوشیدہ طاقت نے کمزوریوں کی جگہ سہاروں کا تبادلہ کر دیا اور میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے کھڑا جالیوں کے سوراخوں سے پانچ دیواری پر پڑی سبز چادر کے نظروں سے بوسے لیے جا رہا تھا اور حسرت بڑھتے ہوئے یہ تمنا کر رہی تھی کہ کاش کوئی ایسا نظارہ مل جائے جو روح کی نگاہوں کی روشنی بڑھا دے اور میں چادر و دیوار سے آگے نکل کر آرام گاہ سرکار ﷺ کی صفائی اپنی پلکوں کے جھاڑو سے کر سکوں اور خاک کو دل کے پیالے میں اکٹھا کرکے لوٹ آؤں-

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-