بے بس لاچار سفید پوش احباب کو سوچتے ہوئے میرے زہن کی زمین پہ اترنے والے لفظوں کی ترتیب میں جو منظر بنتے ہیں وہ مجھے رلا دیتے ہیں- میں اپنے بوتیک پہ بیٹھا تھا کہ ایک بے بسی کا چہرہ جس کی آنکھوں سے اس پہ گزرنے والی تلخیاں میری آنکھوں کو نم کرنے لگیں وہ بول نہیں رہا تھا مگر اس کے حالات میرے دل کے سناٹوں میں شور مچا رہے تھے اس کے پھٹے مقدروں کی طرح کپڑوں کو دیکھ کر مجھے احساس نے سوال کیا کپڑے تو بہت عرصے سے بیچ رہے ہو کبھی کسی کو کپڑے پہنائے بھی ہیں؟
میں اپنے ہی ضمیر کے اس سوال کے جواب میں دریا شرمندگی میں ڈوب گیا۔۔۔۔۔
میں نے اسے بیٹھنے کی درخواست کی اس کے لیے چائے کا آرڈر دیا اور خود گھر جا کر الماری میں اپنا سب سے اچھا سوٹ نکالا اور لوٹ آیا-اس کی چائے ختم ہو چکی تھی میں نے اس کی مفلسی کا احساس اوڑھ کر اس سے بڑی عاجزی و انکساری کے ساتھ منت ترلہ آمیز لہجے میں گزارش کی کہ آپ یہ کپڑے قبول کر کے مجھ پر احسان کریں گے تو میرا ضمیر مجھ پہ ملامت کی گرفت نرم کر دے گا ۔۔۔۔۔
اس نے ہاتھ آگے بڑھائے اور میں نے جوڑا اسے تھماتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ چمک تھی جس سے میرے اندر کے اندھیرے روشن ہو گئے
روانہ ہوتے خاموشی کی زبان سے جذبات کے ہاتھ اٹھا کر جو دعائیں اس کی روح دے رہی تھی اس کا معاوضہ دنیاوی دولت سے ادا کرنا ممکن نہیں ۔۔۔۔۔
کچھ روز بعد وہ شخص جب وہی سوٹ پہن کر مارکیٹ میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر میں پھر یہ سوچ کر رو پڑا کہ کپڑے تو میرے ہیں مگر ان میں میں نہیں ہوں
اس احساس نے مجھے حاصل کے سجدہ شکر میں گرا دیا۔۔۔۔۔۔
کسی کرائے کے مکان میں رہنے والے کو پرندوں کے لیے گھونسلہ بنانے پر خدا اپنا گھر عنایت کر دیتا ہے
ضروری نہیں ہر دعا ہاتھ اٹھا کر ہی مانگی جائے کچھ دعائیں آپ کے چھوٹے سے عمل کے بیج میں اجر کا پھل دار درخت چھپائے پھرتی ہیں انہیں انسانیت کی زمین پر بو کر تو دیکھیں۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-