سیاست پیغمبری کا دوسرا نام ہے اور حقیقی سیاست وہ ہوتی ہے جو انسانوں کو پھولوں کی سیج پر لٹانے کے لیے خود کانٹوں پر چلتی ہے اور خدا کے بندوں کے پیٹ بھرنے کے واسطے خود اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر کام کرتی ہے لیکن آج کی سیاست اس قدر مسخ ہو چکی ہے کہ وہ بے بس کمزور لاچار انسانوں کو کانٹوں پر چلا کر خود پھولوں کی سیج پر لیٹتی اور خدا کے بندوں کے پیٹوں پر پتھر بندھوا کر فقط اپنا اور اپنے چہیتوں کا پیٹ بھرتی ہے آج کے اچھے سیاستدان کے واسطے یہ شرط لازم ہے کہ اصول خدمت و انسانیت کے اعتبار سے وہ ناقابل برداشت حد تک بُرا انسان ہوجس کے سامنے غربت و مہنگائی سے مجبورعوام کی آہ وبکا سے فضا ء کانپتی ہومگروہ یہ کہے کہ میرا لیڈر میرا حکمران اس وقت تاریخ کا سب سے بہترین خدمت گار ہے یہ ترجمان لوگ شر کے شعلوں سے سچ کو سرعام جلا تے ہیں اور ان کا لیڈر انہیں شاباش دیتا ہے کہ حکومت کی ناقابل برداشت سچائی بیان کر رہے ہیں۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ کسی انسان نے شراب پی ہو اور یہ کہے کہ میں نشے میں نہیں ہوں میں مان لوں گا لیکن کوئی شخص اقتدار میں ہو اور کہے کہ میں نشے میں نہیں ہوں میں یہ نہیں مان سکتا۔یہ بہکے ہوئے انسانوں کا ہی طرز عمل ہے کہ وہ مہنگائی کو سارے مسائل کا حل تصور کرکے قابلیت کے کارحانے چلانے کی عقل وشعور سے محروم ہوتے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنی مدد آپ اپنے معاشرے کا نظام چلاکر لولی لنگڑی اپاہج حکومتوں کے واسطے ہر دور میں حالت قربانی میں رہنے والی عوام کوزبان بندی میں عافیت کا پیغام دیتے ہوئے اس کے سینوں پر جبر کے پنجے گارڑ پر اقتدار کا تخت لگایا جاتا ہے۔
میں روزنچلی سطح کے ایسے انسانوں کو دیکھتا ہوں جوخودغرض زمانے کی خاردار جھاڑیوں سے اپنی روح چھینی کروا کے اپنے بچوں کا رزق لاتے ہیں اور اس کا بڑا حصہ مہنگائی بجلی گیس کے بلوں اور اشرفیہ کی سہولتوں کی نذر کر دیتے ہیں میں ان غریبوں کو دیکھ کر آسمان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوں تو خدا یہ جواب زہن کی زمین پہ اُتارتا ہے کہ یہ زمینی صاحب اختیار و اقتدار کے لوگ میری کمزور مخلوق کو کچلنے کی ہر کوشش کر رہے ہیں مگرمیں نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ ان سب طاقتوروں کو اپنی اسی کمزور مخلوق کے ٹکڑوں پرہی پالتا رہوں گا۔تب مجھے ان غریبوں کی امیری پر ناز ہونے لگتا ہے درحقیت یہی لوگ محب وطن ہیں جن کے حق کی عزت چھین کر سیاست کے دامن میں ڈال دی جاتی ہے۔
جس ملک کا سیاست نے یہ حال کر رکھا ہے کہ جس ادارے میں بھی عوام کام لے کرجا ئے وہاں رشوت شفارش کرپشن و ناانصافی نااہلی نالائقی بددیانتی لالچ غرض کی دیواروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ اس اسلامی ملک کے اداروں میں بیٹھے مسلمان اپنے عمل کے اعتبار سے کافر ہیں اور یورپ کے اداروں میں بیٹھے کافر اپنے عمل کے اعتبار سے مسلمان ہیں۔میں نے یہ ماجرا دیکھا ہے کہ کوئی غریب آدمی اپنی حلال کی کمائی باحالت مجبوری اپنا جائزکام کروانے کے لیے کسی سرکاری ملازم کودے اور وہ پیسہ حرام خور جسم میں جاتے ہی بد دعا کازہر بن جاتا ہے اُس کے اہل و عیال کے لیے وجہ بیماری ومصیبت بن جاتا ہے جس کو حلال لڑ جائے اسے جان جانا چاہیے کہ خدا نے اس کی روح کا مزاج حلال پہ رکھا ہے اور جس کو حرام راس آئے اسے اقرا کر لیناچاہیے کہ اس نے رحمان کا دیا ہوا جسم و روح شیطان کے تابع کرکے اسلامی نظام سے بغاوت کی ہے۔
عجب ظالمانہ نظام ہے کہ غلطیاں سیاستدان کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کی سزا میں بے قصور عوام کو مسائل کے شکنجے میں کستے جاتے ہیں اس وقت ملک میں جہاں سیاست نے سفید پوش اور غریب عوام کے مستقبل کوبرباد کیا ہوا ہے وہاں روزعوامی اخلاقیات کے جنازے بھی سیاست کے قبرستانوں میں دفن ہو رہے ہیں لوگ سیاسی تقسیم میں اس قدر بوکھلا گئے ہیں کہ ہر پارٹی اقتدار میں آکرمخالف کو دوش دے کر مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب مسلط کرتی جا رہی ہے اور عوام اپنے ظالم کو درست سمجھ کر پستی جارہی ہے۔
اس ملک کی بنیاد میں اُن سیاستدانوں کو عبرت ناک صورت میں دفنا دیا گیاہے جنہوں نے اس عوام کو قوم بنانے کی سیاست کی بنیاد رکھی تھی اور آج اُن سیاستدانوں کا غلبہ ہے جنہوں نے قوم بننے کی خواہشمند عوام کو وہ غلام بنا دیا جو حکومتی مظالم کے آگے آواز اُٹھانے کی بجائے حکمرانوں کے ظلم اپنے معاشرے میں تقسیم کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے بددیانتی خرام خوری ناانصافی جھوٹ اور ظلم پاکستان میں زندہ و کامیاب رہنے کا اصول بن چکا ہے
سیاست خدمت خلق کی عبادت ہوتی ہے خدا کے فرمان سنتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ خدمت انسان سے بڑی کوئی خدمت نہیں اولین تربیت انسانوں کو آسان و سستا کھانا کھلانے میں ہے اگر سیاستدان صبح وشام مخلوق خدا کی فکر میں عملی اقدامات کا نتیجہ دے تومیں قسم کھا کر کہا جا سکتا ہوں کہ وہ عبادات کے ولیوں سے بڑھ کر خدمت کے جہان کا ولی ہوگا۔خدا اور مخلوق خدا کی گنہگار ہے وہ سیاست جو جھوٹ مہنگائی اور سودی فرضوں سے عوام کا جینا حرام بنا دیتی ہے
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-