دورحاضر میں حضرت انسان کو درپیش خطرات میں سے سب سے اہم ماحولیاتی آلودگی ہے۔ ماہرین ماحولیات گزشتہ کئی برسوں سے دنیا بھر کے انسانوں کو خبردار کر رہے ہیں مگر لوگ ہیں کہ کان دھرنے کو تیار نہیں۔ کمزور ممالک سارا ملبہ ترقی یافتہ ممالک پر ڈال رہیں ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی پوری توجہ اقصادی میدانوں میں مسابقت کے حصول پر ہے۔ جس کے لئے نت نئی صنعتوں کے قیام کو ضروری سمجھاجاتا ہے۔ ان صنعتوں میں تیل اور کوئلے کو بطور ایندھن کے استعمال کیا جاتا ہے اور ان صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ اور دھواں عالمی فضائی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ ، روس، چین ، جاپان، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر یورپی و مغربی ممالک کاربن کے اخراج کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کے تغیرات کی وجہ سے ہونے والی تباہیوں کے باعث ان ممالک کے سامنے اب اپنی بقا ء کا مسلہ بھی آن کھڑا ہوا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی تباہیوں کے باعث نہ صرف حضرت انسان کی معمول کی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ بلکہ دنیا میں ہجرت اورغربت کی طرف بھی ایک اور قدم بڑھا دیا ہے۔
اس ضمن میں ماہرین ماحولیات مزید خبر دار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگرزمین کے درجہ حرارت میں مزید 3 درجے اضافہ ہوگیا تو انسان کے لئے زمین پر زندگی گزرانہ اور مشکل ہو جائے گا۔ اور اگر یہ درجہ حرارت 5 درجے تک بڑھتا ہے تو زمین پر انسانی زندگی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے صورت حال اتنی بدترین ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی غلطیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ مگر ہم پھر بھی بے خبر ہیں۔ ہم ہر سال ماحولیات کے تحفظ کے دن تو ضرور مناتے ہیں۔اور عالمی و ملکی سطح پر اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر اس بات کو معلوم کرنا گوارہ نہیں کرتے کہ آیا کہ عام آدمی بھی ماحولیاتی بگاڑ کے حالات سے شعوری طور پر آگاہ بھی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ گرین ہائوسسز کے اخراج ، ٹرانسپورٹ کے مختلف ذرائع میں استعمال ہونے والے ایندھن اوردرختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک موسمی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ جن علاقوں میں بہت کم سردیاں ہوتی تھیںوہاں اب اتنی برف باری ہورہی ہے کہ گزشتہ ربع صدی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اور جہاں موسم زیادہ تر معتدل یا تھوڑا بہت گرم ہوتا تھا وہاں موسم گرما میں اتنی گرمی پڑنے لگی ہے کہ پہلے اس کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔ ماہرین اس کی وجہ ماحولیاتی آلودگی کو قراردیتے ہیں ۔ان کے مطابق گاڑیوں کے دھویں اور سمندر میں زہریلے فضلے کی آمیزیش کے سبب ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہیق گزشتہ سال دنیا بھر میں ساڑھے نو کروڑ گاڑیاں تیار کی گئیں۔ جن میں سے سات کروڑ اکیس لاکھ کاریں ہیں دس سال قبل یہ تعداد پانچ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ ایک تحقیقاتی جائزے کے مطابق دنیا میں سالانہ ایک لاکھ نوے ہزار افراد گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویں اور فضائی آلودگی کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان میں دل کی شریانوں کی بیماری سے اکانوے لاکھ ، سانس کی بیماری اورپھیپھڑوں کے کینسر سے چونتیس لاکھ ، اسٹروک سے59 ہزار ہلاک ہونے والے افراد شامل ہیں۔
پاکستان میں ان بیماریوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد پینتالیس سو سالانہ ہے۔ یہ ہمارے ملک میں جہاں گاڑیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ ہماری صحت کے لئے خطرہ ہے۔وہاں دوسری طرف سڑکوں کی نا گفتہ بہ حالت سے پیداہونے والی زمینی آلودگی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ اسی طرح ملک کے گنجان شہریوں اور آبادیوں میں موٹر سائیکلوں ، رکشوں ، پرانی گاڑیوں کا دھواںسب سے زیادہ راہ گیروں ہوٹلوں اور ریڑیوں پر فروخت ہونے والے کھلے برتنوں میں کھانوں کو متاثر کرتا ہے۔ جس سے جگر ، سانس اور دل کی شریانوں کے عوارض کے ساتھ ساتھ دیگرمہلک بیماریاں بھی انسانوں کو لاحق ہو جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں معالجین اس بات پر ذور دے رہے ہیں کہ دل ، جگر اور سانس کے عوارض سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے طرز زندگی بدلا جائے پیٹرول اور ڈیزل کی جگہ بیٹری اور شمسی توانائی جیسے متبادل ذریع سے چلنے والی گاڑیاں اس مسلئے کا ایک اطمینان بخش حل ثابت ہو سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں ہماری صوبائی اور وفاقی حکومت نے گرین پاکستان اور گرین پنجاب کے تحت پروجیکٹس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں قوانین کو نہ صرف مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ اس پر عمل دررآمد کوبھی موثر طور پر یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح ملک میں کمیکل بنانے والی فیکٹریاں اور کارخانے پانی میں شامل ہونے والے زہریلے مادے شامل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ جس کی قانون میں اجازت ہی نہیں ہے۔ اس کے انسداد کے لئے بھی قانون پر موثر انداز میں عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس مقصد کے حصول کے لئے تحقیقی سرگرمیوں میں اضافہ بھی نہایت ضروری ہے اور اس فضائی اور زمینی آلودگی سے بچائو کے دوسرے تمام ممکنہ طریقوں کو بھی فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گرین ہائوسز کو فروغ دینے ان کی حفاظت اور بچائو کے لئے عوام الناس میںبھی اجتماعی شعور پیداکرنے کی کوششیں کی جانی چاہیں۔ تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی اذیت ناکی سے بچا جا سکے۔مختصراََ یہ بات اور بھی اہمیت حاصل کر جاتی ہے کہ ہم سنجیدگی کے ساتھ اجتماعی کوششوں سے ہی ہر قسم کی آلودگی سے کرہ ارض کو پاک کر کے محفوظ اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-