اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس اپیل کا شارٹ آرڈر آج 5 بجے سے ساڑھے 5 بجے کے درمیان سنا دیا جائے گا، وجوہات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری ہو گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل
سماعت کے آغاز میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے، جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہیے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تواس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے، اگر مان بھی لیا جائے کہ پراسس کا آغازٹرائل کورٹ جج نے کیا توآگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا، جیل ٹرائل کیلئے منظوری وفاقی کابینہ نے دینی ہوتی ہے، اس کیس میں 12 نومبرسے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود ہی نہیں، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہیے، جوڈیشل آرڈر میں فائنڈنگز بھی دینی چاہیے، ابھی تک ایسا کوئی آرڈر موجود نہیں، یہ اس کیس میں سب سے بنیادی غیرقانونی اقدام ہے، اب وفاقی کابینہ نے منظوری تو دے دی لیکن بنیادی جوڈیشل آرڈر موجود ہی نہیں، مان بھی لیا جائے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری ہوگئی تو اس سے پہلے کی کارروائی غیرقانونی ہے، جج نے 8 نومبر کو وزارت قانون کو آخری خط لکھا، جج کا خط جوڈیشل جوڈیشل آرڈر کی حیثیت نہیں رکھتا، 16 اگست کی سماعت کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا، میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسیکیوشن کی طرف سے آتی ہے، پراسیکیوشن کی درخواست پر جج نے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوتا ہے، پراسیکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہو گا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا۔
وکیل نے کہا کہ جج نے لیٹر میں لکھا کہ مستقبل کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے جیل ٹرائل کی منظوری دی جائے، کابینہ کی منظوری کے باوجود اس جیل ٹرائل نوٹیفکیشن کا ماضی سے اطلاق نہیں ہو گا، جج بھی اپنے لیٹر میں ماضی نہیں بلکہ مستقبل کی بات کر رہے ہیں، یہ لیٹر چیف کمشنر نے وزارت داخلہ کو بھجوایا، وزارت داخلہ سے لیٹر وزارت قانون کے پاس گیا اور سمری تیار کر کے کابینہ کو بھجوائی گئی، 10 نومبر کو تیار کی گئی سمری میں ماضی کے جیل ٹرائل کا ذکر نہیں، وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی جس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، جج نے لیٹر میں جیل ٹرائل کی منظوری کا ماضی سے اطلاق نہیں مانگا، جو چیز مانگی ہی نہیں گئی کابینہ اس کی منظوری کیسے دے سکتی ہے؟
جسٹس گل حسن نے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضروریات کو پورا کرتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ نے جوڈیشل آرڈر کے بغیر منظوری دی۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ ہم نے گزشتہ روز رجسٹرار ہائی کورٹ سے 2 سوالات پوچھے تھے، رجسٹرار نے بتایا کہ جج کی تعیناتی کے پراسس کا آغاز اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا، یہ بھی بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے جیل سماعت سے پہلے ہائی کورٹ کو آگاہ بھی کیا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سائفر کیس میں ابھی تک جیل ٹرائل کی تمام کارروائی غیرقانونی ہے، اگر مستقبل میں بھی جیل ٹرائل کرنا ہے تو جوڈیشل آرڈر لائیں، کابینہ سے منظوری لیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے جوابی دلائل مکمل ہو گئے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سائفر کیس کا جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے، یہ بات درست ہے ماضی میں ملزمان کے اہلخانہ کو جیل ٹرائل دیکھنے کی اجازت نہیں ملی، وجہ یہ تھی کہ جیل میں ٹرائل کے لیے کورٹ کو ملنے والا کمرہ بہت چھوٹا تھا، اب اس متعلق سنگل بینچ نے بھی آرڈر پاس کر دیا ہے، جیل ٹرائل سے متعلق ٹرائل کورٹ جج کا جوڈیشل آرڈر موجود ہے، جج آرڈر شیٹ میں لکھا ہے کہ ٹرائل جیل میں کیا گیا تو یہ جوڈیشل آرڈر ہے، اوپن ٹرائل کے لیے گائیڈ لائنز کو فالو کیا جائے گا۔
سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔