انوکھے لاڈلے کو بتانا چاہتا ہوں فیصلے آسمانوں کے ہیں، شیخ رشید احمد

انوکھے لاڈلے کی بلوچستان میں تین سیٹیں ہوں گی‘ جیل جانے کو تیار ہوں اگر میں نے جیل سے ہی 2 سیٹوں پر الیکشن لڑنا ہے تو شہنیل کی لال رضائی اور تکیے بھی لے لئے ہیں۔ سربراہ عوامی مسلم لیگ کی میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے نوازشریف کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ انوکھے لاڈلے کو بتانا چاہتا ہوں فیصلے آسمانوں کے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ جو انوکھا لاڈلہ ہے میں بھی کچھ عرصہ انکے ساتھ رہا ہوں اس انوکھے لاڈلے کی بلوچستان میں تین سیٹیں ہوں گی، میں جیل جانے کو تیار ہوں اور اگر میں نے جیل سے ہی 2 سیٹوں پر الیکشن لڑنا ہے تو شہنیل کی لال رضائی اور تکیے بھی لے لیے ہیں، سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ مجھ پر 70 سے 80 دہشتگردی کے کیسز کردیئے گئے ہیں، ایسا لگتا ہے میں پاکستان کا دوسرے نمبر کا سب سے بڑا دہشت گرد ہوں، میری صحت ٹھیک نہیں ہے لیکن ہارتا وہ ہے جو حوصلہ ہارتا ہے، اس عمر میں بھی میں نے کسی دوست کےخلاف بیان نہیں دیا، انوکھا لاڈلہ سمجھ لے فیصلہ آسمانوں پر ہو گا۔
بتایا جارہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں شیخ رشید احمد کی سندھ اور بلوچستان میں درج مقدمات خارج کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، عدالت نے موچکو اور لسبیلہ میں درج مقدمات میں شیخ رشید کی گرفتاری روکنے کے حکم میں جنوری تک توسیع کردی اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کیماڑی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایس ایس پی کیماڑی بتائیں عدالتی حکم کے باوجود مقدمے پر کارروائی کیسے جاری رکھی گئی؟ اس موقع پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’لسبیلہ میں درج مقدمہ کے اخراج کیلئے رپورٹ بھجوا دی، محکمے کو مراسلہ بھجوا دیا ہے‘، جس ہر عدالت نے لسبیلہ مقدمہ کے مدعی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے شیخ رشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’چِلے سے بھی آپ کی جان نہیں چھوٹی؟ اور سندھ کے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہو گئی ہیں‘، افسر سندھ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ہماری تفتیش مکمل ہوگئی، چالان جمع کرانا ہے، سابق تفتیشی افسر نے تفتیش مکمل کی، دہشت گردی دفعات کا اضافہ بھی کیا، میرے خیال میں یہ مقدمہ بنتا ہی نہیں تھا، شاید کوئی سیاسی معاملہ ہوا ہو، میرے پاس یہ کیس ہوتا تو ایف آئی آر خارج ہو چکی ہوتی لیکن میرا اب تبادلہ ہوچکا ہے، آئندہ سماعت پر شاید کوئی اور افسر پیش ہو‘۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ ’ان کا بیان نہ لکھیں یہ تو ویسے ہی ایمانداری سے یہ بات بتا رہے ہیں‘، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ’آپ کا بیان ہم کارروائی کا حصہ نہیں بنا رہے، یہ نہ ہو آپ کی نوکری چلی جائے‘، اس کے ستاھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کر دی۔