شاہ محمود قریشی کی فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواست پر بھی فیصلہ محفوظ ،چیف جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا
اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سائفر کیس میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس پر سماعت کی۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل دئیے، شاہ محمود قریشی کے وکلاء علی بخاری اور تیمور ملک عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل راجہ رضوان عباسی نے کہا کچھ حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، 9 اکتوبر کو کاپیز کی نقول شاہ محمود قریشی کو دی گئیں تھیں۔
، اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 17 اکتوبر کو شاہ محمود قریشی نے 9 اکتوبر کے آرڈر پر دستخط کئے تھے، 23 اکتوبر کو قانونی تقاضے پورے کرکے فرد جرم عائد ہوئی تھی، قانون میں صرف کاپیز فراہم کرنے کا ذکر ہے، ملزم کے وصول کرنے کا نہیں۔
اگر ملزم تعاون نا کر کے کاپیز وصول نا کرے تو اس سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں، عدالت نے کاپیز سپلائی کر دیں، مقدمہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں تھا مگر لاہور ہائی کورٹ کا ایک سال تک حکم امتناع رہا، ایف آئی اے نے حکم امتناع خارج ہونے پر انکوائری مکمل ہونے پر کمپلینٹ پر مقدمہ درج کیا، کچھ آڈیو لیکس بھی اس کیس میں تھیں، پٹشنرز نے لاہور ہائیکورٹ میں ایف آئی اے کے نوٹسز چیلنج لئے، اسپیشل پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ ایک سال سے اس کیس میں لاہور ہائیکورٹ میں اسٹے رہا ہے پھر انہوں نے وہ پٹیشن واپس لے لی۔
اس کے بعد ایف آئی اے نے کاروائی شروع کی ایف آئی اے کے اندراج میں کوئی ڈیلے نہیں ہے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ ہم 15 سے 20 دن میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کر سکتے ہیں،اگر عدالت ہمیں 15 سے 20 روز یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ دے تو ٹرائل مکمل کر دیں گے۔یہ تو یہ ٹرائل کو آگے نہیں بڑھنے دیتے۔یہ کہتے ہیں ہر سماعت پر تین تین گواہوں کے بیانات ریکارڈ کریں۔
سائفر کیس کا ٹرائل زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں مکمل ہو جائے گا، ایف آئی اے پراسکیوٹر نے کہا کہ ضمانت تب دی جاتی ہے جب ملزم کیخلاف شواہد موجود نہ ہوں۔ہماری گزارش یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی بھی اس جرم کے ارتکاب میں برابر کے شریک ہیں۔ سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کی ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔شاہ محمود قریشی کی فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواست پر بھی فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔