ہم جدا نہیں ہونا چاہتے، 15 سال سے رشتہ ازدواج میں منسلک پاکستانی خاتون کی افغان شوہر کیلئے دہائی

کراچی (این این آئی)محمد بلال نے محبت کی خاطر اپنے ملک اور بھائی بہنوں کو الوداع کہہ کر ڈیرہ غازی کی رہائشی رابعہ کے ساتھ کراچی میں گھر بسا یا، پندرہ سال سے رشتہ اذدواج میں منسلک دونوں فریقین کے لیے زندگی ایک دم مختلف ہوجائے گی یہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔محمد بلال خود تو پاکستان میں پیدا ہوئے تاہم ان کے والدین افغان مہاجرین میں سے تھے۔

محمد بلال نے بتایا کہ وہ 1988 میں کراچی میں پیدا ہوئے تاہم شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم اور نجی زندگی شدید مشکلات سے دوچار رہی البتہ کراچی نے ان کے پیٹ بھرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور اس شہر کی بدولت بلال نے روزگار اور محبت دونوں کو حاصل کرلیا۔

انہوںنے کہاکہ رابعہ ہمارے محلے میں رہتی تھی اور اکثر گزرتے ہوئے ہماری ملاقات ہوجایا کرتی تھی، ان سے ملا تو پسند آگئیں، ماں باپ کو بتایا کہ آپ جاکر رشتے کی بات کرلیں، وہ تیار ہوگئے تاہم میرے بھائیوں نے کہا کہ اگر تم نے پاکستانی لڑکی سے شادی کی تو سمجھ لو تمہارا ہم سے اور ہماری سرزمین سے کوئی رشتہ نہیں رہے گا۔بلال نے کہا کہ اس کے بعد ان کے بھائی افغانستان چلے گئے اور انہوں نے رابعہ کے ساتھ گھر بسا لیا ، البتہ بلال کے گھر والوں کے بر عکس رابعہ کے گھر والوں کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔

میرے گھر بلال کا رشتہ آیا تووالدین نے میری مرضی پوچھی، میں نے اپنے والد کو جواب دیا کہ جیسے آپ کو بہتر لگے ویسا کرلیں لیکن بلال مجھے پسند ہے۔رابعہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے جواب پر ابو مجھے چھیڑتے ہوئے کہنے لگے کہ تمہیں یہ ہی لڑکا پسند آیا ہے۔جس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ میں نے آپ کے سوال کا جواب دیا ہے۔

رابعہ نے بتایا کہ ہماری شادی کو پندرہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، بلال کا رشتہ قبول کرنے کی وجہ ان کا حسن اخلاق تھا اور تب سے اب تک ایک دن ایسا نہیں ہے جب بلال نے میرا اور میرے گھر والوں کا خیال نہ رکھا ہو ، میری بیوہ والدہ اور طلاق یافتہ بہن کو بلال نے ہمیشہ اپنے گھر والوں کی طرح محبت دی ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ جب سے غیر ملکیوں سے متعلق آپریشن شروع ہوا ہے میرے گھر والے بہت پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور اپنے شوہر کے شناختی کارڈ کے حصول کیلئے کافی جدوجہد کر چکی ہیں تاہم کچھ حاصل نہ ہوسکا، رابعہ نے کہا کہ ایک وکیل نے ان سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کیا اور رقم کی ادائیگی کے بعد یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا کہ یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا البتہ بلال نے بھی شناختی کارڈ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔بلال نے کہا کہ میں نے خبر سنی کہ پشاور ہائیکورٹ نے پاکستانی اہلیہ ہونے کی بنیاد پر ایک افغان شہری کو شناختی کارڈ بنوانے کا حکم جاری کردیا ہے، معزز عدلیہ کے فیصلے کے بعد میں نے بھی ہاتھ پاؤں مارے تاہم کوئی فائدہ نہ ہوا، مجھے افسوس یہ ہے کہ شروع میں میں نے بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا ، خبر نہیں تھی کہ پاکستان میں بغیر کارڈ کے رہنا گھر والوں سے جدائی کا سبب بن سکتا ہے۔

بلال نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے اسی ملک میں آنکھیں کھولیں اور اسی سے محبت کی ہے، قانون کے فیصلوں کے آگے خاموش ہوں لیکن حقیقت ہے کہ ہم پاکستان کے مقروض ہیں، یہ ملک ہمیں واپس بھی بھیج دے تو ہمارا ملک پاکستان ہی رہے گا۔الآصف اسکوائر کے دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے فلیٹ میں یہ گھرانہ رہائش پذیر ہے لیکن آپریشن کی وجہ سے آج کل ان کی زندگی شدید متاثر ہورہی ہے ، بلال نے کہا کہ وہ پندرہ دن سے کام پر نہیں گئے ہیں جس کمپنی میں میں کام کرتا ہوں وہ بہت عزت اور خیال کرنے والے لوگ ہیں ، کارڈ نہ ہونے کے باوجود انہوں نے مجھے اس لیے جگہ دی کہ میرا روزگار چلتا رہے،غیر ملکی افراد سے متعلق جب سے حکومت نے واپس بھیجنے کا اعلان کیا ہے تب سے کمپنی میں بھی ان افراد کو آنے کا کہا جارہا ہے جن کے پاس کارڈ ہے۔

بلال نے بتایا کہ وہ اس وجہ سے بھی گھر سے باہر نہیں جارہے کہ اگر انہیں باہر سے اٹھا کر ڈیپورٹ کردیا گیا تو بیوی بچے انہیں ڈھونڈتے رہ جائیں گے۔رابعہ اور بلال کے پانچ بچے ہیں جن کے مستقبل کو لے وہ پریشان ہیں ، اس کے علاوہ بلال کے لیے الجھن یہ ہے کہ اگر وہ واپس جاتے ہیں تو بھائی انہیں قبول نہیں کریں گے اور رکتے ہیں تو بھی ان کے لیے مشکل ہوگی۔خاتون نے آبدیدہ ہوتے ہوئے بتایا کہ میرے شوہر کے بھائیوں نے پندرہ سال کے شادی کے عرصے میں ہمیں قبول نہیں کیا انہوں نے یہاں تک دھمکی دی تھی کہ اگر تم واپس آئے تو ہم تمہیں مار دیں گے ، میں اپنے شوہر کیلئے فکر مند ہوں یہ میرا واحد سہارا ہیں، جہاں تک بات میرے جانے کی ہے تو میں کیوں جاؤں میں تو پاکستانی ہوں، وہ لوگ میرے لوگ نہیں ہیں نہ ہی افغانستان میرا وطن ہے۔محبت کی شادی کرنے والے اس جوڑے نے حکومت سے مہاجرین پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی ہے۔