سابقہ حکومتوں کی پاور پالیسیز ملک کے موجودہ بجلی بحران کی وجہ قرار، 90 کی دہائی، 2002 اور 2015 کی پاور پالیسیز کے تحت لگائے گئے بجلی کارخانوں سے بجلی نہ خریدنے کے باوجود ادائیگی کرنے کے معاہدے کیے گئے، اسی مسئلے کی وجہ سے توانائی سیکٹر ملکی خزانے اور عوام پر بوجھ بن گیا
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پیپلز پارٹی، پرویز مشرف اور ن لیگ کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام غیر استعمال شدہ بجلی کے 2 ہزار ارب روپے ادا کرنے پر مجبور، سابقہ حکومتوں کی پاور پالیسیز ملک کے موجودہ بجلی بحران کی وجہ قرار، 90 کی دہائی، 2002 اور 2015 کی پاور پالیسیز کے تحت لگائے گئے بجلی کارخانوں سے بجلی نہ خریدنے کے باوجود ادائیگی کرنے کے معاہدے کیے گئے، اسی مسئلے کی وجہ سے توانائی سیکٹر ملکی خزانے اور عوام پر بوجھ بن گیا۔
تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی، پرویز مشرف اور ن لیگ کے ادوار میں کیے گئے بجلی معاہدوں کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اس حوالے سے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں معروف صحافی و اینکر شہزاد اقبال کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ پیپلز پارٹی، پرویز مشرف اور ن لیگ کے ادوار کی پاور پالیسیز ملک کے موجودہ بجلی بحران کی وجہ بنی ہیں۔
90 کی دہائی، 2002 اور 2015 کی پاور پالیسیز کے تحت لگائے گئے بجلی کارخانوں سے بجلی نہ خریدنے کے باوجود ادائیگی کرنے کے معاہدے کیے گئے، اسی مسئلے کی وجہ سے توانائی سیکٹر ملکی خزانے اور عوام پر بوجھ بن گیا۔ شہزاد اقبال نے انکشاف کیا کہ عوام سے بجلی کی وصول کی جانے والی قیمت میں 60 فیصد کیپسٹی پیمنٹ کی صورت میں حاصل کیے جاتے ہیں، یعنی اگر عوام کو بجلی کا ایک یونٹ 30 روپے کا پڑتا ہے تو اس میں 18 روپے تو صرف کیپسٹی پیمنٹ کے ہوتے ہیں۔
یوں عوام سالانہ 2 ہزار 10 ارب روپے اس بجلی کے ادا کرتے ہیں جو نہ انہوں نے استعمال کی ہوتی ہے، نہ ہی اس کی پیدوار ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پورا سال پانی اور شمسی ذرائع سے سستی ترین بجلی بھی پیدا کرنا شروع کر دی جائے، تو بھی عوام کو کیپسٹی پیمنٹ کے 2 ہزار ارب روپے اضافی ادا کرنا ہوں گے۔