9 مئی کے واقعات میں سنگینی کا پہلو موجود ہے، ٹرائل منصفانہ ہونا چاہیے: چیف جسٹس

اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ 9 مئی کو ہونے والے حملوں میں سنگینی کا پہلو موجودہے ، میری یاداشت میں ماضی کا ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں جب ملک بھر میں اداروں پر حملہ ہوا ہو۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بنچ نے مذکورہ درخواستوں پر سماعت کی ۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو وفاق کے مؤقف سے آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ 5:40 پر ہوا، حساس فوجی تنصیبات پر حملہ تقریباً ایک ہی وقت پر ہوا، 9 مئی کو ملک بھر کے حساس فوجی تنصیبات پر حملے 3 بجے سے لے کر 7 بجے تک کیے گئے ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ایف بیس میانوالی میں جہاں حصاری دیوار گرائی گئی وہاں معراج طیارے کھڑے تھے، پی اے ایف بیس میانوالی میں جہازوں کے استعمال کے لیے فیول بھی موجود تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور کو شدید نقصان پہنچایا گیا، پنجاب میں 62 جگہوں پر حملہ کیا گیا جس میں 52 افراد زخمی ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے نقصانات کے تخمینے سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں مجموعی طور پر 2 ارب 50 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، جس میں فوجی تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ ایک ارب 99 کروڑ روپے ہے۔

9 اور 10 مئی کے واقعات کی تصاویرعدالت میں پیش

اٹارنی جنرل نے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی تصاویر پیش کر تے ہوئے عدالت کو بتایا کہ کس طرح جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ون پر حملہ کر کے حملہ آور اندر داخل ہوئے، جی ایچ کیو میں فوجی مجسمے کو توڑا گیا، جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی ہسٹری میوزیم پر حملہ کیا گیا، جی ایچ کیو میں آرمی سگنلز آفسرز میس پر حملہ کیا گیا، آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور آئی ایس آئی حمزہ کیمپ راولپنڈی پر حملہ کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور کی تصاویر بھی بینچ کو پیش کر دیں اور بتایا کہ حملہ آوروں نے 9 مئی کو پیٹرول بم بھی استعمال کیے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ کیا مظاہرین نے مسجد پر بھی حملہ کیا؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے انہیں بتایا کہ مظاہرین نے 9 مئی کو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر مسجد پر بھی حملہ کیا، ایک حملہ آور نے کور کمانڈر کی وردی پہن لی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتے ہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ فوج ہتیھار چلانے میں مکمل تربیت یافتہ ہوتی ہے، 9 مئی کے واقعے پر فوج نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاہور اور پشاور کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا، تمیرگرہ میں سکول کو نقصان پہنچایا گیا، پنجاب رجمنٹ مردان سنیٹر،بلوچستان رجمنٹ ایبٹ آباد پر حملہ کیا گیا، موٹروے ٹول پلازہ سوات کو جلایا گیا مگر اس کاروائی کی ویڈیو نہیں، 9 مئی کو بلوچستان اور سندھ میں صورتحال قابو میں تھی ۔

فل کورٹ بنانے کی استدعا

منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا سامنا رہا لیکن ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا، 9 مئی کے واقعات اچانک نہیں منظم طریقے سے کیے گئے ۔

اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ان وجوہات کی بنا پر فل کورٹ تشکیل دیکر مقدمے کی سماعت کرے۔

اٹارنی جنرل کے الزامات کی نوعیت بہت سنگین ہے: جسٹس منیب اختر

اٹارنی جنرل نے بتایاکہ لیاقت حسین کیس اور 21 ویں آئینی ترمیم میں بھی جرم سویلین نوعیت کا تھا۔ جس پر جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ وہاں صورتحال باکل مختلف تھی، آئینی ترمیم کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہ اکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ایسا پہلی بار ہوا کہ عوام نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے، درخواست گزاروں نے جو نکات اٹھائے ان پر بھی بات کریں، سیکشن 7 کے تحت ملٹری کورٹس میں سزا کتنی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 7 اور 9 کے تحت ملٹری عدالتوں میں سزا 2 سال قید ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہی سزا زیادہ سے زیادہ بنتی ہے؟ اٹاربی جنرل نے بتایاکہ جی یہی سزا بنتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو عام عدالتوں میں سزا اس سے زیادہ بنتی ہے، سول قوانین کے تحت زیادہ سنگین سزائیں موجود ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے جو مواد ریکارڈ پر رکھا ہے وہ تفتیش کی بنیاد بنے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکشن 3 کے معاملے پر حکومت سے ہدایت لے کر عدالت کو آگاہ کروں گا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اس وقت حالات مختلف تھے، ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ 9 مئی کے واقعات میں جن جرائم کے تحت چارج لگایا گیا یہ آرمی ایکٹ میں آتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جن افراد کا آپ ٹرائل کرنا چاہ رہے ہیں وہ سویلینز ہیں، کیا آرٹیکل 175/2 کو مدِ نظر رکھے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ پوائنٹ یہ ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات اپنی نوعیت کے پہلے واقعات تھے، آپ کے مطابق 9 مئی سے پہلے کبھی کسی سویلین نے فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا، آئینی سوالات سے پہلے کچھ سوالات کا جواب ضروری ہے، جو 102 افراد فوجی حراست میں ہیں ان کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے گا؟

چیف جسٹس کاکہناتھا کہ یہ نکتہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ کے اختیارات دوسرا کون استعمال کر سکتا ہے؟ فوجداری معاملات کا ماہر نہیں ہوں مگر جو دفعات لگائی گئیں ان کو بھی دیکھنا ہو گا، درخواست گزار یہ نہیں کہہ رہے کہ ان افراد کو رہا کر دیں اور سزا نہ دی جائے، صرف یہ بتا دیں کہ کیسے ان افراد کا کیس غیر جانبداری سے دیکھا جائے گا؟ کون سی دفعات لگائی گئی ہیں؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ ملزمان کے جرائم سول نوعیت کے نہیں ہیں، ملزمان پر دفعہ 302 کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا کسی آرمی افسر کی ڈیتھ بھی ہوئی؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ کسی آرمی افسر کے جانی نقصان کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ جب کسی آرمی افسر کی ڈیتھ نہیں ہوئی تو دفعہ 302 کیسے لگا دی گئی؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ یہ دلائل ہدایات پر نہیں دے رہا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو ملزمان کی تفصیلات پر ہدایات لینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت جمعے تک ملتوی کردی ۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی تھی۔