اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے وفاقی حکومت کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بنچ نے مذکورہ درخواستوں پر سماعت کی۔
عابد زبیری کے دلائل
سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری روسٹرم پر آگئے، انہوں نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
عابد زبیری نے کہا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کررہا ہوں، میری 5 معروضات ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ بات کرسکتے ہیں، جو بولنا ہے بتائیے، آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا۔
عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 83 اے کے تحت سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا، عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کےفیصلوں کی جانب دلانا چاہتا ہوں، 1999 میں سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس سے اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کے مطابق صرف فوجی اہلکاروں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلنز کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکارہو گی۔
عابد زبیری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نے جوڈیشل ریویو کی بات کی تھی، بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سوال ہے کہ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہوسکتا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ اپنا مؤقف واضح کریں کہ کیا ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کے لیے کافی ہو گا؟ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟
عابد زبیری نے کہا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ملزمان کا تعلق ٹرائل کے لیے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا، فوج سے اندرونی تعلق ہو تو کیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے موقف کو خلاصہ میں بیان کرسکتے ہیں، اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟
عابد زبیری نے کہا کہ گزارش یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، 9 مئی پر کچھ لوگوں پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو ہوا کچھ پر نہیں، اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خصوصی عدالت سے مراد آپ کی وہ عدالت ہے جو ہائی کورٹ کے ماتحت ہو؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشنل نہیں ایگزیکٹیو اراکین ہوتے ہیں، ٹرائل کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے، اکیسویں آئینی ترمیم ایک خاص مدت کے لیے تھی، آرٹیکل 175/9 کے تحت سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لیے ترمیم ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ملزمان کا اندرون تعلق ثابت ہو جائے تو کیا ہوگا؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ موجودہ حالات میں ٹرائل کے لیے خاص ترمیم کرنا ہوگی، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، ہمیں معلوم نہیں کہ ملزمان کے فوج عدالتوں میں مقدمات چلانے کا پیمانہ کیا ہے، فوجی عدالتوں میں مقدمات سننے والے جوڈیشل کی بجائےایگزیکٹو ممبران ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 21 ویں اور 23 ویں ترامیم خاص مدت کے لیے تھیں، 21 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے اجازت تو دی لیکن سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں ریویو کا اختیار بھی دیا، سپریم کورٹ نے دائرہ اختیار یا اختیارات سے تجاوز بدنیتی کی بنیاد پر جوڈیشل ریویو کا اختیار دیا۔