سیکورٹی وجوہات کی بناءپرملٹری ٹرائل کیس میں صحافیوں و رشتہ داروں کو رسائی نہیں دی جاتی، وکیل وزارت دفاع

ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل ، مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے ، وکیل وزارت دفاع

اسلا م آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو آگاہ کیا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار پر دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ جج ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی۔انہوں نے استدلال کیا کہ سپریم کورٹ کے سامنے آرٹیکل 184 کی شق تین کا کیس عدالت کے سامنے نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مجاز عدالت نہ ہو۔بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کرلے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے موقف اپنایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے، جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے، وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھ دیا جائے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور ہے، جب رٹ میں ہائی کورٹس میں اپیل آتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔