سویلینز کا ملٹری ٹرائل، آئینی بینچ نے زیرحراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی استدعا مسترد کر دی

مقدمہ سن رہے ہیں فی الحال کسی اور طرف نہ جائیں، جسٹس امین الدین خان،عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت جمعرات تک ملتوی کردی

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے زیرحراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کر دی، سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کی، سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث بیمار ہیں، انہیں معدے میں تکلیف ہے اس لئے پیش نہیں ہو سکتے۔
دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے زیرحراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ جیلوں میں کم از کم ملاقات تو ہوسکتی ہے۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دئیے کہ ملاقات کے حوالے سے اٹارنی جنرل یقین دہانی کروا چکے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملاقات کروائی جا رہی ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دئیے کہ مقدمہ سن رہے ہیں فی الحال کسی اور طرف نہ جائیں۔

بعدازاں آئینی بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت موخر کرنے کی درخواست خارج کردی تھی۔عدالت نے سابق چیف جسٹس پر جرمانہ عائد کر دیاتھا۔آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے سے متعلق کیس کی سماعت موخر کرنے کی درخواست پر سماعت کی تھی۔
سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک سماعت نہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ بھی کر دیاتھا۔عدالت نے جواد ایس خواجہ کے وکیل سے استفسار کیا کیا آئینی بینچ کو تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا میں آئینی بینچ کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے تھے کہ آپ کا کوئی پیارا زیرحراست نہیں اس لئے تاخیر چاہتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے سابق چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ کے وکیل سے کہا پھر آپ کمرہ عدالت چھوڑ دیں جس پر وکیل کا کہنا تھا موجودہ آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن نے نامزد کیا تھا۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا آپ کی طرف سے تاخیری حربے استعمال ہو رہے ہیں، ہر سماعت پر ایسی کوئی نہ کوئی درخواست آجاتی ۔
26ویں آئینی ترمیم کالعدم ہو جائے تو عدالتی فیصلوں کو تحفظ فراہم کیاجاتا تھا۔جن لوگوں کو ملٹری کورٹس میں زیر حراست کیا وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی ترمیم کے تحت ہی کام کر رہی ہے، جو بھی بینچ بن رہے ہیں نئی ترمیم کے تحت ہی بن رہے تھے۔ آئینی ترمیم کا مقدمہ بھی ترمیم کے تحت بننے والا بینچ ہی سنے گا۔
اس کے بعد عدالت نے حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی کو روسٹرم پر بلایاتھا۔آئینی بینچ نے حفیظ اللہ نیازی کو روسٹرم پر بلا کر پوچھا کیا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر ان کا کہنا تھا میں یہ کیس چلانا چاہتا ہوں، جبکہ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا جو لوگ جیلوں میں پڑے ہیں ان کا سوچیں، آپ کا تو اس کیس میں حق دعوی نہیں بنتا۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا آپ کا کوئی پیارا زیرحراست نہیں اس لئے تاخیر چاہتے ہیں، سپریم کورٹ آئینی ترمیم کے تحت ہی کام کر رہی تھی۔
جو بھی بینچ بن رہے ہیں نئی ترمیم کے تحت ہی بن رہے تھے۔ آئینی ترمیم کا کیس بھی ترمیم کے تحت بننے والا بنچ ہی سنے گا۔آئینی بینچ نے 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت موخر کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا تھا۔